پتا نہیں کیوں بعض لوگ خصوصا میرے اہل خانہ مزید خصوصا والد صاحب میری نیند کو سبب نحوست اور میری کاہلی کا اکلوتا سبب قرار دیتے ہیں حالانکہ کم خوابی سے نظام ہضم اور اعصاب میں خلل پڑنا تو عام بات ہے مگر آج تک سوکر اٹھے انسان نے محبت بھرے انداز میں وقت پوچھنے یا معصومیت سے چائے مانگنے کے علاوہ کوئی جرم نہیں کیا۔ نیند کی اہمیت میں آٹھ گھنٹے کی لازمی نیند جیسی عظیم طبی سفارش کو نظر انداز کردیں تب بھی بعض افلاطون قسم کے افراد ایسے ضرور مل جائیں گے جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ بجائے اظہار خیال اگر وہ اس وقت کہیں جھپکی لے رہے ہوتے تو یہ معاشرے کے حق میں زیادہ مفید ہوتا مگر ان تمام دلائل کے باجود بھی "جو سویا وہ کھویا” کی بین الاقوامی شہرت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
تو ذکر تھا ہاسٹل کی نیند کا ،نہیں معلوم یہ صرف میرا مسئلہ ہے یا مجھ جیسے ہر قابل اسٹوڈنٹ کی یہی مشکل ہے کہ نیند جہاں کم ظرف کے غصے کی طرح جلد آتی ہے وہیں دامن کردار کے دھبے کی طرح دیر میں چھوٹتی ہے اور وقت پر پہونچنے میں اس کا کردار ہمیشہ علاقائی پولیس کا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ادھر کسی کام کے انجام دینے کا وقت مقرر کیا ادھر نیند نے اپنا شیڈول بدلا اب وہ اس کام سے صرف ایک گھنٹہ قبل ہی آئے گی اسلئے میرے خیال سے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے شعبۂ صحت عامہ اگر مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے موبائل کے بجائے براہ راست لاشعور کو یہ پیغام پہونچا دیا کرے کہ صبح سات بجے کی میٹنگ رات کے ایک بجے ہے تو ٹھیک بارہ بجے آنکھیں بوجھل ہورہی ہوں گی۔
میرے ہاسٹل کے دوستوں کی نیند کی بھی مختلف اقسام ہیں اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس قبیل کی نیند والوں کو روم پارٹنر نہ بنائیں یا اپنی نیند کے لئے ایک پلان بی ترتیب دے لیں کہتے ہیں گھر لینے سے پہلے علاقے کے پڑوسی اور پیاز جانچ لینی چاہیے میری مانیں تو ٹھیک اسی طرح ہاسٹل روم الاٹ ہونے سے پہلے انٹرویو روم کے باہر بکمال محبت یا مذاق مذاق میں یا پھر موسم کی جانکاری کے تبادلے کے دوران ممکنہ ہم حجرہ افراد سے انکی نیند کے بارے میں کامل معلومات بہم فرمالیں ورنہ آپ کا ہاسٹل کی اقامت کا دورانیہ مختصر ہوسکتا ہے۔
جن بھانت بھانت کے طلبہ ے میری نیند کو خلاف عادت بتایا یا انتقاما میں نے جن کی نیند میں مزاحمت ایجاد کی وہ کچھ اس طرح ہیں:
ایک تو وہ ہیں کہ انہیں آپ جتنی مرضی جگالیں اور جتنا چاہیں سلادیں مگر وہ ایک بار سوئیں گے تو بارہ گھنٹے سے کم پہ راضی نہیں ہوتے…ایسے افراد کی اس عظیم الشان جبلت کی تشخیص پولیو کے ٹیکے لگاتے وقت ہی دریافت کرکے انہیں سیاست دان بنایا جانا چاہیے تاکہ اگر رات میں ایک عوامی جلسہ کرکے سوئیں تو عوام کے اگلے چوبیس گھنٹے سکون سے گزر سکیں ان کی خاص بات یہ ہے کہ اٹھانے پر ناراض نہیں ہوتے کیوں کہ اٹھتے ہی نہیں آپ نے اگر محنت مشقت سے اٹھا بھی دیا تو کمبل سرکاکر انہوں نے کروٹ بدلی موبائل میں وقت دیکھتے ہوئے ایک نظر آپ پر بھی ڈالی اور خواب کو وہیں سے متصل کردیا۔
دوسری قسم ان بہادروں کی ہے جو کہیں بھی کبھی بھی اپنی نیند کا کوٹہ پورا کرلیتے ہیں آپ ریلوے اسٹیشن پہ بات کرتے کرتے چائے لینے جائیں واپسی پر سوتے ہوئے ملیں گے اور اٹھتے ہی کہیں گے اچھا تم چائے لانے گئے تھے ان افراد کی بھی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جگانے پر بالکل ناراض نہیں ہوتے کیوں کہ جانتے ہیں وہ آپ کے چائے پانی سیگریٹ پوچھ تاچھ جیسے وقفوں میں کسر نکال لیں گے۔ تیسری قسم ان خدا ترس بندوں کی ہے جو نہ جانے ریاضت کے کون سے اصولوں کی پابندی کرکے اس مقام کو پالیتے ہیں کہ اب نیند نیند نہیں ایک اعلیٰ درجے کے مصور کے ہاتھوں میں اس کا مانوس برش ہے جب جدھر جیسے چاہا گھمالیا "ایک تم ہی کو نیند آتی ہے؟” "پھر وہ کیسے اٹھتا ہے” "کچھ تو سیکھو” جیسے بے شمار ناصحانہ جملوں کی ایجاد کا سہرا انہی کے اخلاق حسنہ کے سرجاتا ہے اگر انکو بھنک لگ گئی کہ صبح دس بجے ہنگامی جلسہ ہے تو یہ رات دس بجے سارے کاموں سے فارغ ہوکر ساڑھے دس بجے تک خراٹے لے رہے ہوتے ہیں پھر جب آپ کی نیند ابتدائی مراحل میں ہو اور آپ میٹنگ کینسل کرنے کے بہانے تراش رہے ہوں تو یہ ناشتے سے فارغ ہوکر تنظیم الامور، کاہلی کے نقصانات اور سحر خیزی کے فوائد پہ لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔
یہی وہ موقع ہے جب دنیا کے کامیاب ترین افراد کی مختصر اور جامع سوانح حیات، اخبار کے اقوال زریں اور مستند احادیث شریفہ ایک ساتھ سننے کو مل جاتی ہیں۔ اٹھو بھئی جب معلوم تھا صبح جانا ہے تو جلدی کیوں نہ سوئے؟ ؟ اس کے جواب میں جو ذہن میں آتا ہے وہ شرعی قوانین میں ایذاء مومن، علم نفسیات میں چڑچڑے پن کے لچھن، اور صحافتی زبان میں ناقابل اشاعت موادکے زمرے میں آتا ہے لہذا خاموش رہیں اور سارا دھیان کمبل کی گرفت پہ رکھیں. عموما نیند کو آدھی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اگر کلاس کے دوران اچانک آنکھ کھلے اور خدانخواستہ استاد آپ ہی کو دیکھ رہا ہوتو یہ لمحہ پوری موت سپہ بھہی بھاری ہے اسلئے ایسے موقعوں پر حواس قابو میں رکھیں اور فورا کتاب پر کہیں بھی انگلی رکھ دیں جس سے یہ تاثر جائے کہ سطریں کھوگئی تھیں، اور اگر کچھ بولنا ہو الفاظ تیزی سے ادا کریں تاکہ بھرائی ہوئی آواز حقیقت حال سے پردہ نہ اٹھاسکے مسکرانے سے قطعا پرہیز کریں کیوں کہ یہ جتنی غیر اختیاری ہے اتنی ہی غیر فطری ہے ساتھ ہی نگاہیں کسی زاوئے پر مرکوز کرکے زرا سا اونچے ہوکر ایک گہری سانس لیں کہ جناب میں کافی دیر سے کسی گہری فکر میں ہوں مگر اس کے بعد بھی اگر استاد مسکرا دے تو یہ آپ کی بدنصیبی ہے


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn