Qalamkar Website Header Image

بے روزگار بندر

 انسانی بستی سے دور کسی جنگل میں ندی کے کنارے ایک تیسرے درجے کا شکاری اپنا معمولی سا جال لگائے گھاس پر بیٹھا ایک پتھر کی اوٹ میں چاقو تیز کررہا تھا.اپریل کی ابتدا تھی اور ابھی دھوپ کو شدت کا روپ دھارنے میں ہفتہ دس دن باقی تھے ، ہوا کی خنکی اور دھوپ کا سہانا رنگ جانوروں کے لئے میدانوں کی طرف رخ کرنے کا دعوت نامہ ہی تھا. ہو کے عالم میں کبھی کبھی کسی جانور کے دہاڑ نے آواز سناٹے کو چیرتی چلی جاتی اور پھر خاموشی چھا جاتی. شکاری ہلکی سی آہٹ پر بھی ہاتھ روک کر جال کی طرف دیکھنے لگتا تھا اور کسی بھی سرسراہٹ پر اس کا ہاتھ ان پتھروں کی طرف چلا جاتا جنہیں اس نے کتوں کو بھگانے کے لیے اکٹھا کیا تھا، امید تھی کہ کوئی نا کوئی بے خبر جانور ہاتھ لگ ہی جائے گا.

ایک معمولی شکاری جسے اپنے علاقے میں کوئی پوچھتا تک نہیں تھا وہ اس پرائے جنگل میں سکون سے شکار کی امید لگانے کو اپنا حق سمجھتا تھا کیوں کہ وہ ایک بیدار طائفے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے شکار خواب غفلت میں تھے، فطرت کا یہ قانون صدیوں سے اس دنیا پر حاکم رہا ہے. جلد ہی انتظار ختم ہوا اور جال کی ہلچل دیکھ کر شکاری دوڑ پڑا مگر نزدیک جا کر مایوس ہونا پڑا کیوں کہ ہرن پکڑنے کی امید میں لگائے گئے جال میں ایک بلی پھنسی تھی. شکاری جال خالی کرنے کے لیے نیچے جھکا اور حیرت کی انتہا نہ رہی جب اچانک ہی وہ بلی فصیح اردو میں گویا ہوئی: اے مہمان شکاری اگر تو مجھے اس جال سے آزاد کردے تو شاید میں تجھے کسی بڑے شکار کا پتا دوں جس کے لیے تونے اتنی زحمت کی ہے، شکاری قدرت الہی پر تو یقین نہیں رکھتا تھا مگر اسے اکیسویں صدی کی کرشماتی سائنس نے قائل کرلیا اور اس بلی نے خبردی کہ چند ہی میٹر کے فاصلے پر ہرنوں کا جھنڈ پانی پینے آتا ہے.

شکاری نے شکریے کے چند رسمی جملے کہہ کر دوبارہ جال کو ندی کے اس پار دلدل میں اگی گھاسوں پر لگایا اور جلد رہائی کا وعدے کے ساتھ بلی کو تھیلے میں بند کردیا. کچھ ہی دیر میں سینکڑوں بے خبرہرنوں کا جھنڈ شکاری کے امپورٹیڈ جال کے اطراف ناچنے گانے میں مصروف تھا، زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کہ کسی ہرن کے ہاتھ پاوں مارنے کی آواز پہ شکاری دوڑا البتہ اب اسکے پاس ایک مکاری نام کا دوسرا جال بھی تھا جو اسے جنگل والوں نے ہی دیا تھا جاتے ہی شکاری نے ہرن کو ایک اسپیشل آفر کردی. بھئی دیکھو میں یہاں تمہاری امید میں نہیں آیا ہوں اگر کسی بڑے شکار کی خبر مل جائے تو تم کو آزاد کرنا میرے لیے مشکل نہیں ہے ہرن نے فورا کنٹریکٹ سائن کردیا اس لیے کہ وہ جنگل کے مقابلہ حسن میں بھلے ہی بلی پر سبقت لے جاتی رہی ہو مگر جہالت کے لحاظ سے دونوں ایک ہی درجہ میں تھیں.

یہ بھی پڑھئے:  کھجوروں کا شہر بم (سفرنامہ ایران - دوسری قسط)

بے چاری نے آزادی کی امید میں زیبروں کی آماجگاہ کا پتا بتادیا مگر اس کے بعد بھی قید ہی رہی. اسی طرح بات زیبرے، چیتے، بھالو سے ہوتی ہوئی شیر تک جا پہنچی اور شکاری نے اکیلے دم پر دسیوں کو انہیں کی سرزمین پر باندھ کر ڈال دیا.اب شیر کو باندھنا زرا مشکل کام تھا کیوں کہ شکاری کا جال شیر کے تیز دانت، نوکیلے ناخن اور مضبوط بدن کے لیے نہیں بنا تھا مگر اسے اپنے قوت بازو سے زیادہ بے وقوفوں کی بے خبری سے امید تھی. کچھار کے نزدیک پہونچ کر بڑا تعجب ہوا جب شکاری نے شیر کو شکم سیری سے اونگھتے ہوئے پایا لہذا اب اچانک حملہ ہی مناسب تھا، شکاری ہتھیار سنبھالے نزدیک گیا مگر شیر کے خراٹے گونجتے رہے، کوئی حرکت نہ دیکھ کر شکاری نے جال دوہرا کرکے ڈال دیا شیر پھر بھی پڑا رہا پھر ایک ہاتھ میں مضبوطی سے لمبے پھل کا چاقو پکڑے شکاری جب پوری طرح سے شیر کو باندھ چکا تو شیر نے کروٹ بدلی اور جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اپنا ایک ایک بند جال کی گرفت میں پایا.

شکاری نے مسکراتے ہوئے کہا قبلہ مجھے حیرت نہ ہوگی اگر آپ بھی فصیح اردو میں مجھے لعن طعن کریں
شیر نے ایک عجیب سی انگڑائی لی اور دانت پر دانت جما کر کہا برخوردار میں سونہیں رہا تھا.گویا یہ تمہاری بہادری کی دلیل ہے کہ تم نے جیتے جاگتے خود کو بندھوا لیا، شکاری نے طنز کیا.سنو مسٹر شکاری نہ میں غافل ہوں اور نہ ہی جاہل اپنی نازک گردن زرا سی بائیں جانب کرو تو وہ پتھر صاف نظر آرہا ہے جہاں تم سرجھکائے اپنا چاقو تیز کررہے تھے.میرے ایوان صدر کے مین گیٹ کا زاویہ ہی ایسا ہے کہ کوئی میری نظر سے بچ کر یہاں داخل نہیں ہوسکتا میں ایک جست میں تمہاری گردن مروڑ سکتا تھا
پھر تم نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ اب شکاری کے تعجب کی باری تھی
اس بار کا جواب شیر کے دینے سے پہلے اوپر درخت کی ایک شاخ میں ہلچل ہوئی اور ایک بندر نے پتوں میں سے سر نکال کر کہا حضور آپ کو زحمت ہوگی اگر پروٹول میں خلل نہ پڑرہا ہوں تو اس سوال کا جواب ناچیز دینا چاہتا ہےشیر نے ہاتھ اٹھا کر اجازت دی اور بندر نے کہا جناب غیر ملکی محترم! جس مملکت کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن جائیں تقدیر ان کے حاکموں کو مفت خوری اور عوام کو غلامی بخش دیتی ہے

یہ بھی پڑھئے:  سستا شکار

جنگل کو اب تک جاہلوں کی بستی سمجھنے والے شکاری کو پہلی دفعہ خوف محسوس ہوا.اسی اثنا میں بندر نے ایک جست لگائی اور شکاری کا چاقو اڑاکرپھر اسی شاخ پر جابیٹھا.. شکاری نے بندر کی لیاقت اور جگرمندی کی داد دینے والے انداز میں پوچھا تم راجا صاحب کے وزیر اعظم ہو یا قومی سلامتی کے مشیر؟نہیں یہاں کا وزیر اعظم ہاتھیوں کا سردار ہے کیوں کہ راجا صاحب کی خوراک کا بند وبست اسی کے ذمہ ہے اور مشیر خا ص جہاں پناہ کی خالہ زاد وہ بلی تھی جو کہیں بندھی پڑی ہے مجھ جیسے پڑھے لکھے بےروزگاروں کی تعداد یہاں ہزاروں میں ہےہم اپنوں کے فن کی قدر نہیں کرتے تبھی تو جنگلی ہیں. شکاری بے حس و حرکت غش کے قریب تھا اور بندر شیر کا جال کاٹتے وقت بڑبڑاتا جارہا تھا میں شروع سے یہ منظر دیکھ رہا تھا مگر بولنے پر غداری کا مقدمہ ہوسکتا تھا لیکن آخرکار ضمیر نے کہا او انسان صفت بندر لعنت ہو تجھ پر جو تیری بیدار مغزی بیداری قوم کے کام نہ آئے. شیر کا جال کٹا ایک جھٹکے میں شکاری کی گردن مروڑی گئی اور دونوں بے خبر قیدیوں کو آزاد کرانے نکل کھڑے ہوئالبتہ ملک و قوم کی اس بے لوث خادم کے دل میں اب بھی یہ خوف ہے کہ بادشاہ اعتراف خدمات میں اسے کسی محکمے کا کلرک بنا دے گا اور بلی بطور نیشنل سکیوریٹی ایڈوایزر پھر بحال ہوجائے گی.اسی کو جنگل کہتے ہیں.

حالیہ بلاگ پوسٹس