Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

اسرائیل ایران جنگ۔ دعوے اور حقیقت

دو باتیں درست ہیں اولاً یہ کہ ایران اسرائیل کے 10 طیارے مار گرانے اور 3 پائلٹ زندہ گرفتار کرلینے کے اپنے دعوؤں کو عملی طور پر (ثبوتوں کے ساتھ) ثابت نہیں کرپایا۔ دوسری بات اسرائیلی موقف ہے کہ ’’ایران کی کمر توڑ دی ہے اب وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا‘‘ لیکن ایرانیوں نے حیران کن جوابی وار کئے۔ تل ابیب سے حیفہ تک خوف کا رقص ہے اسرائیلی شرح اموات کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے خلاف جنگی کارروائی کے آغاز پر اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لئے کہہ دیا تھا۔ ایرانی کارروائیوں سے اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا؟ ایران کے دعوے اپنی جگہ لیکن دنیا ’’الجزیرہ‘‘ اور فاکس نیوز کی رپورٹنگ کو نظرانداز نہیں کررہی۔ جنگ ہے اور جنگ کے میدان کی گرماگرمی کے ساتھ دعوے فروخت ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایران یا اسرائیل دونوں سفید جھوٹ بول رہے ہیں یا دونوں ’’گامن سچار‘‘ ہیں۔ البتہ اسرائیل میں حالیہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی نافذ ہونے والی خصوصی سنسر شپ کی بدولت انہی اطلاعات پر تقیہ کرنا پڑے گا جو دستیاب ہوں گی۔

اطلاعات کا ایک ذریعہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس بھی ہیں ۔ ان میں کچھ سنجیدہ تجزیے اور ٹھوس اطلاعات ضرور ہیں زیادہ تر چھان بورا ہے۔ مثلاً لال ٹوپی والے احمق پاکستانی دفاعی ماہر زید حامد کا یہ دعویٰ کہ ایران میں مارخوروں نے متوازی جاسوسی کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں تعاون کیا۔ اس کا دعویٰ فقط یہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ ہلکے پھلکے دفاعی تعاون کی راگنی بھی الاپ رہا ہے۔ اسی اثناء میں سوشل میڈیا پر چند گھنٹوں میں اردن سے منسوب ایک نیوز ویب سائٹ مقبول ہوئی، اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے بھاری دفاعی سازوسامان ایران پہنچادیا ہے۔ ہمارے ہاں کے چند شوخے نفع و نقصان کی قیمت سمجھے بغیر اس جعلی ویب سائٹ کی خبروں کو آگے بڑھارے ہیں۔ پاکستانی کمرشل لبڑل اور دیسی ملحدین کے باوا آدم ارشد محمود کی حالت تو دیدنی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے تھنک ٹینک کی شہرت رکھنے والے اس نفسیاتی مریض کا بس نہیں چلتا کہ وہ آگے بڑھ کر نیتن یاہو کی دست بوسی کرے کہ اس نے ایران پرحملہ کر کے اس کے ’’ٹبر‘‘ پر احسان عظیم کردیا ہے۔ ہماری دانست میں معاملہ یہ ہرگز نہیں کہ ایران کی مذہبی رجیم کی حمایت کی جائے یا نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت ہونی چاہیے یا نہیں۔ ایران کی مذہبی رجیم برقعے پہناتی ہے، افغانستان کی مذہبی رجیم اس سے بھی زیادہ متشدد ہے لیکن مذہبی رجیم کہیں کی بھی اس کا کاروبار شدت پسندی پر چلتا ہے اور اگربدقسمتی سے اسے اقتدار مل جائے تو کاروبار میں جبر کا گرم مصالہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  90 دن بنے 11 سال - تین جماعتوں کی کہانی (قسط :6 )

پاکستانی کمرشل لبڑلز اور بعض دوسرے ترقی پسند نابغوں سے تو ایران کی کالعدم تودہ پارٹی کا اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیان جرات مندانہ ہے۔ تودہ پارٹی وہی ایرانی کمیونسٹ پارٹی ہے جس نے شاہ ا یران کے خلاف اصل جدوجہد شروع کی تھی ۔یہ جدوجہد اس وقت شروع ہوئی جب ایرانی ملائیت ابھی رضا شاہ پہلوی کے ساتھ ہنی مون کے موسم میں تھی۔ معذرت ہم تودہ پارٹی کے موضوع کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ ایرانی انقلاب، جو خالصتاً مذہبی انقلاب تھا، نے ایران کو کیا دیا اور کیا گنوایا  اس پر بات کرنے والے تقریباً نصف صدی سے بات کرتے آرہے ہیں۔ لیکن ایران میں کیسا نظام ہونا چاہیے اس کا فیصلہ ایرانی عوام کو ہی کرنا ہے۔ ایران میں مذہبی عصبیت غالب آئی ،ترقی پسند پیچھے رہ گئے، ایسا کیوں ہوا یہ ایک الگ اور مکمل موضوع ہے۔ ہمارے برادر عزیز محمد عامر حسینی نے حالیہ دنوں میں اور قبل ازیں اس موضوع پر مناسب انداز میں لکھا۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ بہادر کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کرچکا۔ امریکی جو اسرائیلی حملوں سے ایک دن قبل کہہ رہے تھے ہم مذاکرات سے جوہری معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے بعد صدر ٹرمپ ’’کفن‘‘‘ پھاڑ کر بولے
’’ایران اب بھی سمجھوتہ کرلے ورنہ اگلے حملے اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے جو ایرانی سلطنت کا وجود مٹادیں گے‘‘
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان نے ایک تلخ حقیقت دوچند کردی۔ یہی کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی ایران کے خلاف قرارداد اسرائیل کا ایران پر حملہ ہر دو کوامریکی اشیرباد حاصل تھی۔

اس سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایرانی پر فضائی حملوں کے لئے اردن عراق اور شام کی فضائی حدود استعمال کیں۔ عراق نے گزشتہ روز باضابطہ طور پر امریکہ کو یاد دلایا ہے کہ خلیج کی جنگ کے اختتام پر ہوئے معاہدے کے مطابق امریکہ پابند ہے کہ اسرائیل کو عراق کی فضائی حدود استعمال کرنے سے روکے۔ یہاں ہم یہ سوال اٹھانے کو درست سمجھتے ہیں کہ کیا امریکہ نامی ریاست نے کبھی معاہدوں کی پاسداری کی؟ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران اردن اور شام نے جس طرح اسرائیل کی دفاعی مدد کی وہ غیرمتوقع ہرگز نہیں ۔ اردن اور ایران کے تعلقات کا بنیادی بگاڑ ایران کی فلسطینی پالیسی ہے۔ اردن کا شاہی خاندان اور حکومت فلسطینیوں کے لئے کیسے جذبات رکھتے ہیں اس کا اندازہ بلیک ستمبر والی ماضی کی ایک واردات سے لگایا جاسکتا ہے۔ جب اردنی فوج نے ہزاروں فلسطینی مردوزن اور بچے قتل کردیئے تھے۔ بلیک ستمبر کے اس آپریشن کے دو بڑے کردار پاکستان سے تعلق رکھتے تھے ۔ایک ضیاء الحق جو بعد میں پاکستان کے آرمی چیف بنے ،مارشل لاء لگایا اور گیارہ سال سے ایک ماہ اوپر مسلط رہے۔ دوسرے خاقان عباسی یہ صاحب سانحہ اوجڑی کیمپ میں جاں بحق ہوئے۔ بلیک ستمبر والی واردات کے وقت ضیاء الحق اور خاقان عباسی اردن میں ملٹری اتاشیوں کے طور پر تعینات تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  کبھی اس طور سوچ اور عمل کرکے دیکھئے

معاف کیجئے بات سے بات نکلتی چلی گئی۔  اردن کے شاہی خاندان کا تعلق عرب کے بنو ہاشم قبیلے سے ہے۔  موجودہ بادشاہ اس شریف مکہ کے پڑپوتے ہیں جن سے اقتدار چھین کر آل سعود کو دیا گیا تھا۔  اس وقت کے انتظامات کے تحت شام، عراق اور اردن کی حکومتیں نئے برطانوی ٹوڈیوں کو ملیں۔ شام اور عراق میں فوجی بغاوتوں نے بعد میں منظرنامہ بدل دیا،  اردن میں شریف مکہ کا ہاشمی خاندان اب تک برسراقتدار ہے ۔ اردن بیت المقدس کو فلسطین کی بجائے اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ فلسطینی پی ایل او ایک زمانہ سے (پی ایل او  اب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی صورت میں موجود ہے) اردنی دعوے کو مسترد کرتی آرہی ہے۔ مرحوم یاسر عرفات تو  اردن کو ایسی گدھ ریاست کہتے تھے جو اسرائیل کی طرح فلسطین کونوچ کر قائم کی گئی ہے  ۔

شام میں احمد الشرح الجولانی اس وقت حکمران ہیں۔ ترکیہ، اسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی اور عسکری تعاون سے بشارالاسد کی جگہ اقتدار میں آنے والے الجولانی کی والدہ کے خاندانی مذہب بارے اطلاعات اور ماضی کی بحثیں ہمارا موضوع نہیں۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران شام نے اسرائیل کو ہرممکن تعاون فراہم کیا۔  اہم ترین تعاون ایران پر حملہ کرنے والے 200 اسرائیلی طیاروں کے لئے ری فلنگ کا انتظام تھا۔ اس طور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شام کی نئی اینٹی علوی رجیم نے حق وفاداری ادا کیا ویسے یہ بنتا بھی تھا۔ بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے محض کھڑا نہیں بلکہ ہرممکن تعاون بھی فراہم کررہا ہے۔ اسرائیل ایران جنگ کے حتمی نتیجے کو جاننے کے لئے ہمیں (ہم سبھی کو) ایک دو دن مزید انتظار کرنا ہوگا۔

Views All Time
Views All Time
106
Views Today
Views Today
106

حالیہ بلاگ پوسٹس