ایران پر اسرائیل کے متعدد فضائی حملوں میں اسرائیل نے ایرانی پاسداران کے صدر دفتر سمیت متعدد سائنسی تحقیق کے مراکز کے علاوہ تہران اور دیگر شہروں میں رہائشی و حساس مقامات کوبھی نشانہ بنایا۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری، پاسداران کے سربراہ جنرل حسین سلامتی کے علاوہ میجر جنرل غلام علی راشد اور متعدد ایٹمی سائنسدانوں کے شہید ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں جمعرات کو منعقد ہونے والے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اجلاس میں 19 ووٹوں سے منظور کی گئی قرارداد میں ایران پر الزام لگایا گیا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام میں قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے 3 ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ 11 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری سے دو دن قبل یہ خبر منظرعام پر آئی تھی کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ا ڈیڑھ دو سال میں جن ایرانی ایٹمی سائنسدانوں ا ور تحقیقاتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا اس کے بارے میں اسرائیل کو ٹھوس معلومات عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے فراہم کی ہیں۔ ’’آئی اے ای اے‘‘ اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ کی خبر سامنے آنے کے 36 گھنٹے کے اندر آئی اے ای اے کا ہنگامی اجلاس بلاکر ایران کے خلاف اس کے ایٹمی پروگرام کے آغاز سے اب تک کے 20 برسوں میں پہلی بار قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر ایران کے خلاف کثرت رائے سے قرارداد کی منظوری اور اس سے اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ا سرائیل کے ایران پر حملوں سے پیدا شدہ صورتحال پر عالمی رائے عامہ کی تشویش اپنی جگہ بجا ہے. البتہ اس رائے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ آئی اے ای اے میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کرنے والے ممالک اسرائیلی حملے سے نہ صرف پیشگی آگاہ تھے بلکہ ان ممالک نے قرارداد کی منظوری کے ذریعے اسرائیل کو ایران پر حملے کی غیرتحریری اجازت فراہم کردی۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ اور ایران کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات کے متعدد دورہوچکے ہیں اور دونوں ممالک میں سے کسی نے بھی مذاکرات کی ناکامی کا اشارہ نہیں دیا تھا بلکہ طرفین اسے جاری رکھنے کے بیانات دے رہے تھے۔ ایران پر اسرائیلی حملوں سے قبل آئی اے ای اے کی ایران کے خلاف قرارداد اور اس سے قبل بدھ کی شام امریکہ کی جانب سے کویت، عراق، بحرین سمیت متعدد خلیجی ممالک سے غیرسفارتی عملہ واپس بلائے جانے اور سفارتی عملے میں کمی کے اعلان پر ہنگامی طور پر عملدرآمد نے مبصرین کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا۔ آئی اے ای اے میں ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری کے مرحلے میں ہی اسرائیلی حکام کا یہ بیان عالمی میڈیا پر نشر ہوا کہ دنیا ایران کے جوہری پروگرام کو روکے۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد اسرائیل نے حکومتی سطح پر ا علان کیا کہ ایران کم از کم 15 جوہری ہتھیار بناچکا تھا اس لئے اس پر حملے ناگزیر ہوچکے تھے۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کو مشرق وسطیٰ میں پچھلے چند ماہ کے دوران آنے والی تبدیلیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس طرح یمنی حوثیوں کے خلاف کارروائی میں امریکہ اور اسرائیل کو جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد عیدالاضحیٰ سے چند دن قبل امریکہ اور اسرائیل کا یہ کہنا کہ حوثیوں کی پشت پر موجود ملک (ایران) کو نتائج بھگتنا ہوں گے بھی نظرانداز کیا جانے والا موقف نہیں۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کے دوسرے نصف میں ایران کے خلاف شروع ہوئے اسرائیلی حملوں کے ابتدائی نتائج اسرائیل کے حق میں ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری اور پاسداران کے سربراہ کے علاوہ ایک دوسری کور کے ہیڈ کوارٹر کے سربراہ میجر جنرل غلام علی راشد سمیت متعدد سائنسدانوں کی شہادتوں کی تصدیق سے یہ امر دو چند ہوگیا ہے کہ اسرائیل نے ٹھوس معلومات کی بنیاد پر ہی اہداف کو نشانہ بناکر ا بتدائی کامیابیاں حاصل کیں۔ گو ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد مغرب میں اسرائیلی نواز مبصرین اور ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ ایران کے اندر اسرائیل کا جاسوسی کا نظام خاصا مضبوط ہے اور حالیہ حملے اسی نظام کے تعاون سے کامیاب ہوئے ۔لیکن یہ مبصرین ان اطلاعات سے آنکھیں چرارہے ہیں کہ آئی اے ای اے نے ایران کے جوہری نظام کی تفصیلات سے متعلق دستاویز اسرائیل کو فراہم کیں۔ اور پھر راز افشا ہوتے ہی ہنگامی طور پر ایران کے خلاف 20 برسوں میں پہلی بار قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کے الزام کی قرارداد منظور کرالی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملوں کو جہاں آئی اے ای اے کی مکمل تائید حاصل تھی وہیں امریکہ بھی اس کارروائی پر رضامندی دے چکا تھا ۔اسرائیلی حملوں کے بعد امریکی صدر کا ایران کو دھمکی بھرا پیغام بھی ایک ثبوت ہے۔
یہ کہنا صریحاً غلط ہوگا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں سے امریکہ پیشگی آگاہ نہیں تھا۔ ہماری دانست میں شامی بحران میں من پسند نتائج کے حصول اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بڑی کامیابیوں کے ثمرات اسرائیل اورامریکہ کے لئے مشترکہ تھے ۔مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی کے لئے امریکی حکمت عملی پر جس طرح پچھلے ڈیڑھ دو عشروں اور بالخصوص حالیہ عرصے میں عمل ہوا اس سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست اور علاقائی معاملات سے ایران کو بے دخل کرنے کا حقیقی منصوبہ کس کا تھا۔ چین اور روس سمیت متعدد ممالک نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں اس کی مذمت کی ہے ادھر پاکستان میں سینیٹ کے اجلاس میں وزیر خارجہ کی جانب سے ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ بظاہر عالمی رائے عامہ کا بڑا حصہ اسرائیلی حملوں کے خلاف ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ایران پر اسرائیلی حملے اوراس سے قبل آئی اے ای اے میں ایران کے خلاف قراداد کی منظوری امریکہ کی رضامندی کے بغیر ممکن تھے؟ مشرق وسطیٰ کے لئے امریکہ کی طویل المدتی حکمت عملی ہمیشہ ایک ہی رہی اقتدار میں ڈیموکریٹ ہوں یا قدامت پسند ری پبلیکن اسرائیل نواز پالیسی کبھی تبدیل نہیں ہوتی ۔
غزہ کی موجودہ صورتحال بذات خود اس امر کی شاہد ہے کہ بھیانک ترین نسل کشی کے مرتکب اسرائیل کے شانہ بشانہ امریکہ ہی نہیں متعدد دوسری قوتیں بھی کھڑی رہیں اور اب بھی کھڑی ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان خاصا دلچسپ ہے کہ ’’ایران کے پاس ایٹم بم نہیں ہوسکتا‘‘۔ کیا اس بیان کو اس طور لیا جانا غلط ہوگاکہ ایران پر اسرائیلی حملوں کا مقصد ایرانی جوہری پروگرام کی صلاحیت جانچنا بھی ہوسکتا ہے؟ بہرطور اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اسرائیلی جارحیت نے ایک نئی اور طویل جنگ کے آغاز کے خطرات بڑھادیئے ہیں اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ ایران نے ا سرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایرانی حکمت عملی یا جوابی وار کیا ہوگا اس کا حتمی جواب ایک آدھ دن میں سامنے آجائے گا البتہ یہ حقیقت ہے کہ جذباتیت سے عبارت سیاست و بیانات اور عمل کی دنیا میں بہت فرق ہے۔
پسِ نوشت: یہ سطور جمعہ 13 جون کی دوپہر میں رقم کی گئیں


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn