Qalamkar Website Header Image

فیض آباد دھرنے پر آئی ایس آئی کی طرف سے جمع کروائی گئی رپورٹ

آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ خادم رضوی جس کے پچھلے دسمبر والے دھرنے نے اسلام آباد کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔وہ معاشی طور پر کرپٹ ہے۔ آج سوموار کو دو ممبران  جسٹس قاضی عیسی فائز اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل ایپکس کورٹ کا بینچ فیض آباد دھرنے کے سو موٹو کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود وفاقی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے۔ آئی ایس آئی نے کورٹ میں ایک جامع رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے طاقت کے استعمال کی بجائے پر امن طریقے اور باہمی گفت و شنید کے بعد تحریک لبیک کے ساتھ مسئلے کو حل کیا۔ 46 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے مشورے کے بجائے جس میں کہا گیا تھا کہ مسئلے کا حل سیاسی طور پر اور طاقت کا استعمال کیے بغیر حل کیا جائے۔ ہائی کورٹ کے حکم پر 25 نومبر 2017 کو دھرنے کے خلاف ایک آپریشن کیا گیا۔ آپریشن ناکام ہوا اور پورے ملک میں احتجاج ہونا شروع ہو گیا۔

خادم رضوی ڈاکٹر آصف جلالی اور مولوی افضل قادری کی مکمل پروفائل بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رضوی مالی طور پر کرپٹ ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس نےطاقت، اتھارٹی اور وسائل کے غلط استعمال کی طرف رغبت دکھائی ہے۔ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ متکبرانہ ماتحت ملازمین کے ساتھ سخت رویے سے پیش آتا جبکہ اپنے مقصد کے ساتھ بہت سنجیدگی سے منسلک تھا۔ اس کی مجموعی شہرت تسلی بخش نہیں ہے۔ رپورٹ میں جلالی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دوغلا مفاد پرست اور ساز باز کرنے والا شخص ہے۔ اس کی بھی مجموعی شہرت تسلی بخش نہیں ہے۔ اس نے پنجاب گورنمنٹ کے ساتھ کیے معاہدے کی بھی پیروی نہیں کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ ناصر باغ میں ممتاز قادری پر جلسہ نہیں کریں گے۔ وہ فرقہ ورانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔مولوی افضل قادری کی پروفائل میں کوئی منفی پوائنٹ نہیں ملا۔

رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ نے دھرنے والوں کو روکنے کے لیے نہ کوئی رکاوٹیں کھڑی کیں اور نہ ہی کوئی اور اقدامات اٹھائے تھے۔ دھرنا دینے والوں کی تعداد 1500 سے 1800 تھی اور کچھ مقامی لوگ خاص کر جمعہ کے دن ان میں شامل ہو جاتے تھے۔ تحریک لبیک کا دھرنا بیس دن تک چلنا ان کے پیروکاروں کی ہمت کا نتیجہ تھا۔یہ بھی افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ تحریک لبیک کو فوج کی طرف سے خوراک فیض آباد انٹرچینج پر پہنچائی جاتی تھی۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پولیس نہ ہی آمادہ تھی اور نہ ہی اس میں اتنی قابلیت تھی کہ وہ فوجی امداد کو روک سکے۔

یہ بھی پڑھئے:  معراج محمد خان:رومان پرور بائیں بازو کی سیاست کا ایک اور باب تمام

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ آپریشن دونوں شہروں کی پولیس کے درمیان رابطہ نہ ہونے اور راولپنڈی پولیس کی جانب سے مظاہرین کو نہ روک پانے کی وجہ سے ناکام ہوا۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر کوریج سے نہ صرف اسلام آباد راولپنڈی بلکہ پورے ملک میں یہ تحریک پھیل گئی۔ پولیس آفیسرز کے مذہبی جذبات کو تحریک کے قائدین اسپیکر پر اپنی لگاتار تقریروں سے ابھارتے تھے۔ جب دھرنا لمبا ہو گیا اور مشکوک حرکات کا مشاہدہ کیا گیا تب بھی وفاقی حکومت نے تحریک لبیک کے قائدین کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے رابطہ نہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس ائی کے آفیشل نے دونوں پارٹیوں کا مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کے لیے کہا تھا۔

آئی ایس آئی نے دوسری ایجنسیوں کی پرفارمنس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ پولیس کی اسپیشل برانچ نے دھرنے میں اپنا کردار تکنیکی معلومات اور تعداد فراہم کرنے تک رکھا۔ اسی طرح انٹیلجنس بیورو مکمل طور پر لاتعلق رہی اور اس ایجنسی کی طرف سے کوئی کوشش نظر نہیں آئی۔ وزیر اعظم آفس میں 22 نومبر کو ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے گا۔ آئی ایس آئی کو معاملات کو حل کرنے کے لیے مکمل اختیارات دیے گئے۔میٹنگ میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ دھرنا بہت چھوٹا ہے لیکن ان کے فالورز پورے ملک میں ہیں اس لیے پر امن مذاکرات ہی اس مسئلے کا حل ہیں۔

احتجاج کے سپورٹرز :  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کے لوگوں خاص کر بریلوی فرقہ کے لوگوں نے مالی امداد کے ذریعے دھرنے کے اخراجات برداشت کیے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ خادم رضوی نے مارچ شروع کرنے سے پہلے ایک کروڈ روپے اکٹھے کیے، اس نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ یا تو مارچ میں شامل ہوں یا فی بندہ 300 روپ ڈونیٹ کرے۔

بہت سارے مدارس جو تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں انہوں نے بہت زیادہ مالی مدد دی۔ دھرنے کے دوران پوری دنیا سے بہت سے لوگوں نے کثرت سے اپنے عطیات دھرنے والوں کو دیے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ دھرنے والوں کو کھانا 92 چینل کے مالک میاں عبدالرشید فیصل آبادی کی طرف سے دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ رشید احمد، اعجاز الحق(پ ٹی آئی) علما ونگ اور پی پی پی  کے شیخ حمید نے دھرنے کو سپورٹ کیا تھا۔ کالم نگار اور تجزیہ نگار اوریا مقبول جان بھی سپورٹرز لسٹ میں شامل تھے۔ 6 وکیل اور تین ٹریڈ یونینز نے بھی دھرنے کو سپورٹ کیا لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ انہوں نے کیسے سپورٹ کیا۔ برٹش مسلمانوں کے وفد اور ڈیپلومیٹس کے ساتھ ساتھ اسپینشن مسلمانوں کے وفد نے بھی دھرنے والوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ آئی ایس آئی نے 175 لوگوں کی تفصیل فراہم کی جن کو پنجاب کے 36 اضلاع میں آپریشن کے دوران پکڑا گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  طوائف، فقیر اور اسلام آباد کا دھرنا

بجلی: مین کنٹینر کے ساتھ ڈیزل کا ایک جنریٹر لگایا گیا تھا اور باقی ساری بجلی غیر قانونی طور پر سی ڈ اے کی بجلی استعمال کی گئی تھی۔ سی ڈی اے کا ایک سٹینڈ بائی جنریٹر بھی استعمال کیا گیا تھا۔مین کنٹینر پر لگایا جانے والا جنریٹر ولی سنز لاہور کی طرف سے دیا گیا تھا۔

جنریٹر کو چلانے کے لیے ایک دن کا 80,000 روپے خرچہ آتا تھا۔

سوشل میڈیا مانیٹرنگ: ایپیکس کورٹ کی جانب سے اتھائے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے آئی ایس آئی نے بتایا کہ تحریک لبیک ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے جس نے حالیہ الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے کافی تعداد میں ووٹ بھی لیے۔ یہ نہ ہی کوئی کالعدم تنظیم ہے نہ ہی واچ لسٹ پر ڈالی گئی ہے اس لیے اس پر پہلے سے کوئی کڑی نگرانی نہیں کی گئی۔ لیکن دوسری تنظیموں کی طرح یہ بھی تشدد پسندانہ رویوں کی وجہ سے مانیٹر کی جا رہی ہے ۔ آئی ایس آئی نے تسلیم کیا کہ وہ جہادی گروپس اور لوگوں کو مانیٹر کرتے ہیں جو ریاست کو خطرے میں ڈالے۔ رپورٹ میں آئی ایس آئی نے کہا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کی مجاز صرف ایف آئی اے ہے۔ آئی ایس آئی نے بھی کچھ منفی سرگرمیاں مانیٹر کی ہیں جس کی اطلاع ایف آئی اے کو دے دی گئی ہیں۔

ترجمہ بلال حسن بھٹی

 

حالیہ بلاگ پوسٹس