گذشتہ دنوں ایران میں مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ۔ابتداء میں احتجاج پرامن اور صدر کے خلاف تھا لیکن بعد ازاں اس کا رخ ایرانی اقتدار اعلی کی طرف ہو گیا جس نے پورے خطے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ایک عشرے سے وقتا فوقتا سر اٹھاتے احتجاج کو ہر بار کم از کم دو سابق صدور کی حمایت حاصل رہی۔ ایران نہ صرف خلیج فارس بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کے لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس احتجاج کے باعث بہت سے افراد میں ایرانی سیاسی نظام کا "جمہوری” ڈھانچہ جاننے کے لئے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو کہ عوامی بے چینی کے بنیادی اسباب جاننے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ہم پہلے ایرانی سیاسی اور مقتدر اداروں اور کرداروں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
شوری نگہبان
اسلامی جمہوریہ ایران میں 12 رکنی شوری نگہبان کو ایک اہم اور طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ شوری نگہبان کو وسیع اختیارات حاصل ہیں جن میں سب سے اہم معاملہ مجلس خبرگان رہبری، صدر، پارلیمنٹ اور مختلف عوامی عہدوں کے لئے امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی آئین کے آرٹیکل 96 کے تحت شوری نگہبان پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی بھی قانون، پالیسی یا دستاویز حتی کہ بجٹ کو بھی منظور یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ استرداد کی صورت میں آئینی بل پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ اور شوری نگہبان میں تنازع طول پکڑنےکی صورت میں معاملہ "مجمع تشخیص مصلحت نظام” نامی کونسل کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کی تشریح کا مکمل اختیار فقط شوری نگہبان کو ہی حاصل ہے جبکہ انتخابات کے نتائج کی منظوری بھی یہی ادارہ دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس غیر منتخب ادارے کو ایوان بالا یعنی سینیٹ، الیکشن کمیشن اور آئینی عدالت کے تمام اختیارات کلی طور پر حاصل ہیں۔ روایتی طور پر شوری نگہبان کو آیت اللہ خمینی کے زمانے میں اتنی بھرپور طاقت حاصل نہ تھی بلکہ زیادہ تر اختیارات نوے کی دہائی میں تفویض کئے گئے۔ اس ادارے پر سپریم لیڈر کا واضح اثر و نفوذ ہے۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں سپریم لیڈر نے سابق صدر احمدی نزاد کو حصہ نہ لینے کا "غیر رسمی” مشورہ دیا۔ احمدی نزاد نے سپریم لیڈر کی ہدایت کے برعکس کاغذات نامزدگی جمع کروائے جنہیں توقع کے مطابق شوری نگہبان نے مسترد کر دیا۔
اس ادارے کے لئے 6 فقہاء کی نامزدگی کا مکمل اختیار سپریم لیڈر کو حاصل ہے جبکہ باقی 6 ارکان کا انتخاب ایرانی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ ان چھ ارکان کے لئے قانون کے مختلف شعبوں کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ مقابلے کے لئے امیدواروں کے نام چیف جسٹس پارلیمنٹ کو تجویز کرتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ادارے کے موجودہ نوے سالہ سربراہ آیت اللہ احمد جنتی گذشتہ سینتیس سال سے شوری نگہبان کے رکن چلے آ رہے ہیں۔
مجمع تشخیص مصلحت نظام
یہ ایک انتظامی اسمبلی ہے جس کی نامزدگی اور ارکان کی تعداد کے تعین کا مکمل اختیار سپریم لیڈر کو حاصل ہے۔ روایتی طور پر ارکان کی نامزدگی پانچ سال کے لئے ہوتی ہے۔ موجودہ سپریم لیڈر اس کونسل کے پہلے سربراہ تھے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سپریم لیڈر منتخب ہونے کے بعد علی اکبر ہاشمی رفسنجانی 1989 سے لے کر اپنی وفات تک اس کونسل کے سربراہ نامزد ہوتے رہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہی ہاشمی رفسنجانی کو 2009 کے صدارتی انتخاب کے لئے شوری نگہبان نے نااہل قرار دیا تھا جبکہ اس وقت وہ مجلس خبرگان کے سربراہ بھی تھے۔ ایرانی سیاسی حلقوں میں ان کی نااہلی کی اصل وجہ مبینہ طور پر اصلاح پسندوں کی جانب جھکاؤ بتائی گئی جو بعد ازاں سپریم لیڈر سے اختلافات کی وجہ بنی۔
پارلیمنٹ
ایرانی پارلیمنٹ جسے مجلس شورائے اسلامی کہا جاتا ہے 290 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں چار سال کے لئے عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے امیدواروں کی اہلیت شوری نگہبان کی منظوری سے مشروط ہے۔ خارجہ امور، اندرونی و بیرونی قرضوں، بین الاقوامی معاہدوں جیسے اہم ملکی معاملات کی پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے جبکہ عوامی ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ کے منظور کردہ ہر دستاویز حتمی منطوری کے لئے غیر منتخب شوری نگہبان کو بھیجی جاتی ہے جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ ایرانی پالیمنٹ کے موجودہ سپیکر علی لاریجانی ہیں جبکہ آخری عام انتخابات میں 24 خواتین منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ پائی ہیں۔
مجلس خبرگان رہبری
بظاہر یہ ایک اہم ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری سپریم لیڈر کا انتخاب اور اس کے امور کی نگرانی ہے۔ آئینی طور پر مجلس خبرگان ناقابل اطمینان کارکردگی کی صورت میں سپریم لیڈر کوبرخاست بھی کر سکتی ہے۔دوسری طرف مجلس خبرگان کے منتخب اراکین کے لئے سپریم لیڈر کی حتمی منظوری بھی ضروری ہےجبکہ امیدواری کے لئے بھی شوری نگہبان کی چھلنی سے گذرنا لازمی شرط ہے۔ 1983 سے لے کر 2007 تک آیت اللہ علی مشکینی تادم مرگ اس ادارے کے سربراہ رہے۔ان کی سربراہی میں ہی مجلس خبرگان نے 29 سال قبل آخری بار آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر منتخب کیا تھا۔ مشکینی صاحب کے بعد علی اکبر ہاشمی رفسنجانی مجلس خبرگان کے سربراہ منتخب ہوئے۔ دو سال بعد ہی صدارتی انتخاب میں نااہلی کے معاملے پر رفسنجانی اور سپریم لیڈر کے درمیان اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے اور 2011 میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچی جب مجلس کے سربراہ نے کاغذی اختیار کو سچ سمجھتے ہوئے سپریم لیڈر کی کارکردگی اور پالیسیوں پر تنقیدی نظر رکھنا چاہی۔ نتیجتا طاقتور سپریم لیڈر کے سامنے ہار مانتے ہوئے رفسنجانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس وقت نوے سالہ احمد جنتی مجلس خبرگان کے سربراہ بھی ہیں۔
صدر مملکت
اسلامی جمہوریہ ایران میں سیاسی حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جو براہ راست انتخابات کے ذریعے چار سالہ مدت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ صدر کے عہدے کی امیدواری کے لئے شوری نگہبان اور انتخاب کے بعد حلف اٹھانے کے لئے سپریم لیڈر کی حتمی منظوری ضروری ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد صدر اپنی کابینہ منتخب کرتا ہے اور پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتا ہے۔ ایرانی صدر کو مسلح افواج اور عدلیہ کے سربراہان کی تقرری یا ان شعبوں میں اصلاح یا احتساب کا اختیار حاصل نہیں۔ اس کے علاوہ تمام صدارتی حکم ناموں کی سپریم لیڈر سے منظوری ضروری ہے جبکہ سپریم لیڈر کو منتخب صدر برطرف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
چیف جسٹس
ایرانی چیف جسٹس کے لئے عادل مجتہد ہونا شرط ہے۔ اس منصب پر نامزدگی بھی سپریم لیڈر کا اختیار ہے جو پانچ سال کے لئے ہوتی ہے۔ سپریم لیڈر چاہے تو چیف جسٹس کو برطرف بھی کر سکتا ہے۔ عدلیہ سے متعلق تمام ضروری امور بشمول ججوں کی نامزدگی و برخاستگی اور پارلیمنٹ میں ضروری قانون سازی کے لئے آئینی مسودہ کی تیاری کے معاملے میں چیف جسٹس کو مکمل اور بلا شرکت غیرے اختیار حاصل ہے۔ موجودہ چیف جسٹس صادق لاریجانی پارلیمنٹ کے سپیکر علی لاریجانی کے بھائی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایرانی چیف جسٹس صادق لاریجانی نے مجلس خبرگان کو خبردار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اسے سپریم لیڈر کی نظارت supervision کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔
وزیر عدل
وزارت عدل کی سربراہی کے لئے چیف جسٹس مختلف نام صدر مملکت کو بھجواتا ہے جو فہرست میں سے موزوں ترین نام کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر کے منتخب کردہ نام کی حتمی منظوری سپریم لیڈر دیتا ہے۔
نظام عدل
ایرانی نظام عدل معروف طور پر عمومی عدالتوں، شرعی عدالتوں اور انقلابی عدالتوں میں منقسم ہے۔ شرعی عدالت کا فیصلہ عمومی عدالت یا سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور یہ نظام فقط سپریم لیڈر کو جواب دہ ہے۔ انقلابی عدالتیں انقلاب کی پہلی دہائی میں مصروف اور سرعت سماعت کے لئے معروف رہیں۔ پہلے ان عدالتوں کے فیصلے پر بھی عمومی عدالتوں میں اپیل کا حق میسر نہیں تھا جو بعد ازاں سپریم کورٹ کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا۔انقلابی عدالتیں عوامی سطح پر سپریم لیڈر سے وفادار تصور کی جاتی ہیں۔ قانونی اور سیاسی لحاظ سے شرعی اور انقلابی عدالتی نظام کو متوازی عدلیہ سمجھا جاتا ہے۔
ایرانی نظام سیاست اور عوامی بے چینی ۔ حصہ دوم
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn