ہم ذاتی طور پر ہر قسم کی مہم جوئی کے خلاف ہیں اور اس لیے ”مہم جو“ کوئی بھی ہو وہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ خواہ وہ چنگیز خان ہو، ہلاکو خان یا کوئی اور ….. ویسے ان سے پہلے کوئی اور خان نہیں تھا۔ ان کے نقش قدم پر چلنے والے خود کو معزز ثابت کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ”خان“ کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ اسفندیار نے پختون ہونے پر فخر کیا اور خان سے جان چھڑائی۔ ایسی ہی راحت ہمی اپنے دوست اور کومٹڈ شاعر سیاسی ورکر میاں افتخار حسین کے نام سے ہوتی ہے کہ وہ اس لاحقہ کے اسیر نہیں ہوئے اور آزادی کے ساتھ سیاست کرتے ہیں ان کی سیاسی مہم جوئی جاری و ساری ہے اس نے پرویز خٹک کی طرح چوہوں کے خلاف ”مہم جوئی“ سے انحراف نہیں کیا۔
ظاہر ہے کہ….. جو شخص ایک پارٹی سے دوسری اور تیسری پارٹی میں اقتدار اور مفاد کے لیے چھلانگیں لگا سکتا ہے اس کا اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا تو باعث رسوائی نہیں۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست تو سرکس کا کھیل ہے اس میں ”جوکرز“ کی اچھل کود ہوتی رہتی ہے بل کہ ان کی ”انٹری“ رنگ مین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے انھیں تو بس اچھلنا کودنا ہوتا ہے۔ وہ ایچی سن کے پڑھے ہوں یا آکسفورڈ کے۔ یا کسی ٹاٹ سکول کے۔ اور وہ بھی رنگ مین کی ہدایت کے مطابق …..
ہمارے دوست علامہ فکر گنگولوی کی تحقیق اور جستجو ہے ایچی سن یا آکسفورڈ کا تعلیم ہافتہ ہونا کوئی اہم نہیں ….. خان، خان ہی ہوتا ہے وہ پرویز خٹک ہو یا عمران خان۔ ان سے کسی بھی وقت کچھ بھی عبث نہیں بل کہ ان کے چاہنے والوں کو ہمہ وقت کسی عجوبے کا منتظر رہنا چاہیے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر وہ یہ بات ذہن میں نہیں رکھیں گے تو کوئی بھی ”تبدیلی“ انھیں حادثے کا شکار بنا کر ذہنی مفلوج بھی کر سکتی ہے….. علامہ کا دعویٰ ہے کہ چوں کہ سکھوں اور خانوں میں بس ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جو نظر بھی آتی ہے اور نہیں بھی۔ ”ڈیورنڈ لائن“ کی طرح جس کو دونوں طرف کے مکین تسلیم نہیں کرتے پھر بھی اپنی علیحدہ شناخت پر بضد ہیں۔ دونوں مذہب سے کومٹمنٹ بھی ظاہر کرتے ہیں اور اس کے لیے مرنے مارنے پرکو بھی تیار ہوتے ہیں۔ سکھ گودروارے بھی جاتے ہیں اور ہر شام کو مشروب مغرب سے رنگین بھی بناتے ہیں اور خان، روزہ نہ رکھنے اور نماز نہ پڑھنے والے کو ”خان“ نہیں سمجھتے۔ اس کے باوجود اگر وہ سود کا کاروبار نہ کرتا ہو، اس کی نسل پر سوالہ نشان بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ ”خان“ ہیں جو سمگلنگ اور منشیات کے کاروبار کو بھی مذہب کا حصہ بناتے اور اسے تجارت کا نقاب پہنا کر سنت نبوی قرار دیتے ہیں (نعوذ باللہ)
بہ ہرحال ….. بات تو خان کے خان ہونے کی تھی۔ سیاسی چوہا گردی کی تھی۔ جس میں ”چوہانوازی“ نہ ہو تو پھر کیسی مہم جوئی؟؟ اور ”چوہا مار مہم“ اور اس پر انعام بھی ….. یہ کام کوئی خان ہی کر سکتا تھا۔
لیکن…..انعام کی یہ قلیل اور محدود رقم، یعنی تیس روپے فی کس….. یہ ناقدری اور توہین بلا شبہ ناقابل برداشت تھی۔ اس پر صدائے احتجاج بھی بلند ہو سکتی تھی۔ بل کہ مہم جوئی کی زد میں آنے والی مخلوق ….. کتوں اور چوہوں میں سیاسی اتحاد بھی ہو سکتا تھا یہ الگ بات کہ دونوں مخلوقات کی ترجیحات اور عملی مقاصد میں فرق ہے اس لیے ”ٹی اوآرز“ پراتفاق رائے نہ ہونے کا بھی امکان تھا….. کیوں کہ….. کتا خود کو سب سے زیادہ وفادار اور چوہا خود کو موقع پرست جانتا ہے۔ اندھیروں کا یہ مکین بلی سے خوفزدہ بھی ہوتا ہے اور اس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ البتہ اپنی اپنی وفاداری اور موقع پرستی کے باوجود دونوں انسان کو ظالم اور دیگر مخلوقات کا دشمن سمجھتے ہیں چوہا تو اس کا برملا اظہار بھی کر چکا ہے اس کا کہنا ہے کہ
کسی مرض کی تشخیص ہو، اس کے لیے نئی دوائی کی ایجاد ہو، ہر تجربے اور تحقیق کے لیے اسے ہی قربانی کا بکر ابنایا جاتا ہے …..حالانکہ ہماری فطری صلاحیتوں کا اعتراف ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ ہمارے خلاف چنگیز خانی اور ہلاکو خانی روایت کا اعادہ کیا گیا اور یہ کام کوئی ”خان“ ہی کر سکتا تھا۔ پشاور کے چوہے تو سوچ رہے ہیں کہ اے کاش! وہ افریقا میں ہوتے۔ جہاں ہم معصوم اور بے گناہوں کے ”قتل عمد“کے بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ہمیں سرکار دربار میں عزت و احترام سے باقاعدہ کرسی دی جاتی یا پھر کم از کم ہم کو اقلیت تسلیم کرتے ہوئے اسمبلی میں باقاعدہ نشست دی جاتی۔
یہ ہماری ”قوتِ خمسہ“ ہی تو ہے کہ وہں کے انسان نے ہماری وجہ سے بارودی سرنگوں کے بارے معلومات حاصل کی ہیں۔ وہاں کے انسان نے ہماری اس وقت سے استفادہ کیا ہے جو ہمارے جوہر اور صلاحیت کی تربیت کر کے، ہماری صلاحیتوں کے نتائج سے مہلک مرض ٹی بی کی تشخیص شروع کر دی ہے۔ اور ہم ایک منٹ میں اس بیماری کے پانچ نمونے سونگھ کر بتا سکتے ہیں کون سے انسان کا نمونہ اس موذی مرض کا شکار ہے۔ یہ انسان پر ہمارا احسان نہیں تو اور کیا ہے لیکن انسان جیسا احسان فراموش شاید ہی کوئی اور ہو۔ بڑا حیوان ناطق بنا پھرتا ہے؟؟ کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کا خود ساختہ محافظ اور وہ بھلا سونگھ کر تو بتائے کون تپ دق کا مریض ہے!!
حالانکہ….. بیس لاکھ افراد ہر سال افریقا میں تپ دق کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن یہ ہماری جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ فی کس ہماری صرف تیس روپے قیمت لگا رہا ہے۔ جاہل کہیں کا!! ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس خطے میں رہتے ہیں اور ہم پر چنگیز خانی مسلط ہے۔
اے کاش! ہم بھی افریقا میں ہوتے، ہم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ ہماری معاشرتی عزت ہوتی ہمیں بھی معاشی سہولتیں حاصل ہوتیں، ہمیں روٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لی، زہر آلودگولیوں اور پنجروں سے بچ کر، اندھیروں میں نہ بھٹکنا پڑتا۔
ہم بھی آزاد ہوتے۔ ہمارے بھی حقوق ہوتے اور
مساوات کے کائناتی اصول کے تحت ہم کو بھی روزگار کے برابر مواقع میسر ہوتے۔ لیکن، ظالم انسان تو کسی اور مخلوق کے لیے کچھ چھوڑنا ہی نہیں چاہتا۔ سب کچھ خود ہی ہڑپ کر جانا چاہتا ہے۔ اس کے پیٹ اور دوزخ میں کوئی فرق نہیں۔
لیکس والے ہمارے پاس آئیں، ہم بتائیں گے کہ اس نے زمین کی تہوں میں، کہاں کہاں اور کیا کچھ چھپا رکھا ہے؟ ہم تو معصوم اور بے گناہ ہیں، ہم پر تو یونہی الزام ہیں
یہ انسان کی وہ سازش ہے جو ….. ہرمخلوق کے خلاف روا رکھے ہوئے ہے وہ کسی اور کو تسلیم کرتا ہے نہ کسی کو برداشت کر تا ہے، ظالم کہیں کا……
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn