انڈیا کو دنیا بھر میں سروگیٹ مدررز یا ’کرائے کی ماؤں کا گڑھ‘ سمجھا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے بانجھ جوڑے آ کر بچہ دانی کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں جنوبی شہر چینئی میں درجنوں ایسے ہسپتال کھل گئے ہیں جہاں یہ طریقہ آزمایا جاتا ہے۔
کرائے کی زیادہ تر ماؤں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہوتا ہے جو پیسے کی خاطر یہ کام کرتی ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ خالصتاً کاروباری سودا ہے لیکن تین ایسی ماؤں نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی کوکھ میں نو ماہ تک بچہ پالنے کے بعد ان کا بچے سے جذباتی تعلق استوار ہو جاتا ہے، اور جب انول نال کاٹ دی جاتی ہے تو وہ اس کا درد محسوس کرتی ہیں۔
38سالہ ایس سماتھی، چار بچوں کی ماں
میں چینئی کی ایک کچی آبادی ویاسارپدی میں رہتی ہوں، اور میرا تعلق ایک بہت غریب خاندان سے ہے۔ میرے خاوند رکشہ چلاتے ہیں اور ان کی ماہانہ آمدن تقریباً آٹھ ہزار روپے ہے۔ میں چمڑے کے بیگ بنانے والی فیکٹری میں کام کرتی ہوں اور مہینے میں چھ ہزار کما لیتی ہوں۔
سات سال پہلے ہمیں بچوں کی سکول فیسیں دینے کے لیے ایک لاکھ روپیہ ادھار لینا پڑا، جو خاصے عرصے تک واجب الادا رہا۔
ایک دن میں ایک آدمی سے ملی جو سروگیسی کلینک میں کام کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے کرائے کی ماں بننے سے دو لاکھ روپے مل سکتے ہیں۔
ہمارے محلے میں دو عورتیں ایسا کر چکی تھیں اس لیے میں نے بھی ہامی بھر لی۔
میں نے سوچا کہ میرے اپنے چار بچے ہیں تو کیوں نہ میں کسی ایسے جوڑے کی مدد کروں جو خود بچے پیدا نہیں کر سکتا۔
میں کبھی اس جوڑے سے نہیں ملی اور نہ ہی مجھے معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔ جب وہ بچہ مجھ سے لے گئے تو میں ابھی بے ہوشی کی دوا کے زیرِاثر تھی۔ میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا۔
مجھے یہ تک نہیں معلوم کہ وہ کالا تھا یا گورا، انڈین تھا یا انگریز۔ حتیٰ کہ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ لڑکا تھا یا لڑکی۔
جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے خاوند سے پوچھا: ’تم نے بچہ دیکھا؟ لڑکا تھا یا لڑکی؟‘
اس نے کہا کہ اس نے بچہ نہیں دیکھا۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا لیکن اس نے میرے سوال کاجواب نہیں دیا، بلکہ الٹا یہ کہا کہ ’تم کرائے کی ماں ہو، تمھیں اس قسم کے سوال نہیں پوچھنے چاہییں۔‘
لیکن میں بچے کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کون ہے، کہاں ہے۔
بچہ جنم دینے کے تین ماہ بعد تک میری راتیں بےخواب رہیں۔ مجھے سر درد رہتا تھا اور سکون کی دوا لینا پڑتی تھی۔
ہر سال چار نومبر کو ہمارے گھر میں اس بچے کی سالگرہ منائی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے میرے دوسرے بچوں کی۔
34 سالہ آنندی چیپلن، دو بچوں کی ماں
میں ایک دکان میں کام کرتی ہوں جہاں مجھے ڈیڑھ سو روپے یومیہ ملتے ہیں۔ میرے خاوند لوگوں کے گھروں میں رنگ روغن کا کام کرتے ہیں اور روزانہ پانچ سو تک کما لیتے ہیں۔ میرے دو بچے ہیں۔
سات سال پہلے ہم مالی بحران کا شکار ہو گئے تھے۔ میرے خاوند بیمار پڑ گئے اور ہمیں گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے قرض لینا پڑ گیا۔
میں نے جب اپنے شوہر سے سروگیسی کی بات کی اور کہا کہ اس سے ہمیں دو لاکھ مل سکتے ہیں تو وہ برہم ہو گئے۔ ان کا خیال تھا یہ کوئی غیراخلاقی چیز ہے۔ لیکن جب انھیں اس کا طریقۂ کار بتایا گیا تو بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور وہ راضی ہو گئے۔
میں نے ایک ہاسٹل میں نو مہینے گزارے۔ میرے گھر والوں کو مہینے میں صرف ایک بار مجھ سے ملنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔
میرا بیٹا اس وقت چار سال کا تھا اور وہ مجھ سے پوچھتا رہتا تھا کہ کیا میرا بچہ ہونے والا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بیمار ہوں اس لیے میرا پیٹ پھول گیا ہے، اور میرا علاج ہو رہا ہے۔
میں کبھی بچے کو نہیں دیکھ سکی۔ میں ڈاکٹروں سے کہا کہ مجھے اسے ایک بار دیکھنے دیں، لیکن انھوں نے کہا کہ ’اس طرح تم احساسِ جرم کا شکار ہو جاؤ گی۔‘
پہلے مہینے میں روتی رہی۔ میرا خاوند کہتا رہتا تھا کہ ’یہ ہمارا بچہ نہیں ہے، یہ دوسروں کا ہے، ہم نے صرف پیسوں کے لیے ایسا کیا ہے۔‘
میں مانتی ہوں کہ بچہ اس کے والدین کا ہے، اور میں نے اپنی بچہ دانی کرائے پر دی تھی، لیکن چونکہ میں نے اس کی نو ماہ تک پرورش کی، اس لیے اگر اس کے والدین سے ملاقات ہوتی تو اچھا رہتا۔ میں اسے صرف دور سے دیکھنا چاہتی ہوں۔
ہمارا قرضہ پورا ہو گیا لیکن اگلے سال ہمیں پھر رقم کی ضرورت ہے اور میں ایک بار پھر سروگیسی کا سوچ رہی ہوں۔
تاہم اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور اب انھیں سب کچھ بتانا پڑے گا۔
30 سالہ جوتی لکشمی، تین لڑکوں کی ماں
وہ کہتی ہیں کہ میں ایک فیکٹری کام کرتی تھی جہاں میری ماہانہ تنخواہ 3500 روپے تھی۔ میرا شوہر رکشہ چلاتا تھا اور وہ ماہانہ پانچ ہزار روپے کماتا تھا۔
سنہ 2008 میں لڑائی کے بعد میرے شوہر نے گھر چھور دیا۔ ایسے میں میرے لیے پچوں کو پالنا بہت مشکل ہو گیا۔
میں نے ماضی میں ایک تولیدی مرکز کو اپنا بیضہ عطیہ کیا تھا۔ اس لیے میں نے دوبارہ پیسے کمانے کے لیے ایسا کرنا چاہا لیکن ڈاکٹر نے مجھے سروگیٹ بننے کے لیے کہا۔
میری ماں اور میری ساس بالکل تیار نہیں تھیں اور حمل کے بعد انھوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔
میں نے اپنی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کو دیکھا بھی نہیں اور میرے خیال میں یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ کیونکہ اگر میں اُسے دیکھ لیتی تو میں اُسے کسی اور کو دیتے ہوئے بہت شرمندگی محسوس کرتی۔
لیکن یہ مشکل تھا میں اپنے پیٹ میں اُس کی حرکت کو محسوس کرتی تھی، میری اُس کے ساتھ ایک وابستگی تھی۔ میں اُسے دیکھ بھی نہیں سکی اور وہ اچانک چلا گیا۔
تین برسوں تک میں نے اُس کا غم بہت محسوس کیا اور میرا وزن تیزی سے گرنے لگا۔
لیکن اب میں اُسے نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہم گھر پر اس بارے میں بات بھی نہیں کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ بچہ کسی اور کا ہے۔
میں نے وقت کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔
بشکریہ:bbc.com
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn