بھارت کا میزائل پروگرام ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، خصوصاً 10 مئی کے واقعے کے بعد جب "محرکۂ حق” کے دوران بھارتی حکمرانوں کو پاک افواج کے ہاتھوں شدید ندامت اٹھانا پڑی۔ اس کے فوراً بعد دہلی کے حکمرانوں نے فیک نیوز اور جھوٹے بیانیے کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا نیا محاذ کھول لیا۔اور اسی تناظر میں GLOBE EYE NEWSاور چند دیگر من گھرٹ رپوٹوں کے نام پر بے سروپا اور فیک نیوزپھیلائیں جا رہی ہیں۔
اسی دوران ایک امریکی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان بین البرِاعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) تیار کر رہا ہے، جو امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ دفاعی مبصرین کے مطابق اس نوعیت کے الزامات نہ صرف بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں بلکہ بھارت کے منظم پروپیگنڈے، سفارتی چالاکی اور میڈیا اثر و رسوخ کا حصہ ہیں۔ یہ تاثر دینا کہ پاکستان امریکہ پر میزائل حملے کا ارادہ رکھتا ہے، نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ زمینی حقائق سے بھی متصادم ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اگرچہ وقتاً فوقتاً اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، مگر دونوں کے درمیان تاریخی شراکت داری، اقتصادی مفادات، انسدادِ دہشتگردی میں تعاون اور باہمی اعتماد کی بنیاد ہمیشہ قائم رہی ہے۔ امریکہ، پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے، جہاں ہر سال اربوں ڈالر کی پاکستانی مصنوعات جاتی ہیں۔ اگر واقعی پاکستان امریکہ کے لیے کوئی خطرہ ہوتا، تو حالیہ دنوں میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تاریخی ملاقات نہ ہوتی، جو دونوں ممالک کے درمیان نئی تزویراتی ہم آہنگی اور اعتماد کا ثبوت ہے۔
پاکستان کی جوہری اور میزائل پالیسی ہمیشہ ایک دفاعی حکمت عملی یعنی "Credible Minimum Deterrence” پر مبنی رہی ہے۔ اب تک پاکستان نے جس طویل ترین فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کیا ہے، وہ "شاہین-III” ہے، جس کی رینج 2,750 کلومیٹر ہے۔ یہ میزائل بھارت کے مشرقی حصوں تک رسائی کے لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ بھارتی جارحیت کو روکا جا سکے۔ پاکستان نہ کسی عالمی طاقت کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
دفاعی مبصرین کا ماننا ہے کہ پاکستان نے کبھی میزائلوں یا جوہری ہتھیاروں کو سیاسی یا تزویراتی دباؤ کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ جوہری ہتھیاروں کو ایک دفاعی ذمہ داری کے طور پر سنبھالا ہے۔ اگر واقعی عالمی میڈیا کو کسی ریاست کی بڑھتی ہوئی میزائل صلاحیتوں پر تشویش ہے تو اسے بھارت کی طرف دیکھنا چاہیے۔
غیر جانبدار ماہرین کے مطابق بھارت نے اگنی-V جیسے ICBM کا کامیاب تجربہ کیا ہے، جس کی رینج 8,000 کلومیٹر ہے — یعنی یہ میزائل براہ راست امریکی سرزمین تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ بھارت کے پاس دو ایٹمی آبدوزیں (SSBNs) بھی ہیں، جو سمندر میں طویل عرصے تک موجود رہ کر دشمن ریاستوں پر حملہ کر سکتی ہیں۔ ان آبدوزوں کی موجودگی بھارت کو "second strike capability” فراہم کرتی ہے، جو اسے ایک جارحانہ جوہری طاقت کے طور پر پیش کرتی ہے۔
دفاعی ماہرین یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بھارت کا جوہری پروگرام دنیا میں سب سے غیر محفوظ پروگراموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو ایک "ذمہ دار ریاست” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے برسوں سے مغربی ممالک میں جھوٹی اطلاعات اور گمراہ کن بیانیے پھیلا رہے ہیں، جنہیں امریکہ میں موجود بھارتی نژاد ماہرین، صحافی اور تھنک ٹینکس تقویت دے رہے ہیں۔
حالیہ بے بنیاد رپورٹس بھی اسی پروپیگنڈا نیٹ ورک کا نتیجہ ہیں، جن کا مقصد پاک-امریکہ تعلقات کو متاثر کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ، امریکہ، برطانیہ، اور دیگر عالمی دارالحکومتوں میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے ثبوتوں پر مبنی درجنوں ڈوزیئرز جمع کرائے ہیں۔
کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری، بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں، اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے حملے بھارت کے مکروہ عزائم کے کھلے ثبوت ہیں۔ حال ہی میں بھارتی وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں کہا کہ "دہشتگردی اور WMD ایک ساتھ نہیں چل سکتے”۔ یہ اشتعال انگیز بیان دراصل دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش تھی، حالانکہ خود بھارت ریاستی دہشتگردی، غیر محفوظ جوہری ہتھیاروں اور جارحانہ نظریات کا گڑھ بن چکا ہے۔
بھارتی میڈیا، خاص طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس سے منسلک چینلز اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس، امریکہ کے خلاف جس شدت سے نفرت پھیلا رہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ایک ایسا ملک جو امریکہ کو عالمی حریف سمجھتا ہو، اور جس کی میزائل رینج امریکی فوجی اڈوں اور سرزمین تک پہنچتی ہو، واقعی ایک "ذمہ دار شراکت دار” کہلانے کا مستحق ہے؟
اس کے برعکس پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، جس کا کوئی عالمی جارحانہ ایجنڈا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے دفاعی پروگرام کی صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ بھارت کے منفی عزائم اور منظم پروپیگنڈے کا نوٹس لے۔
آخر میں سوال یہ نہیں کہ پاکستان کے میزائل کہاں تک پہنچتے ہیں، سوال یہ ہے کہ بھارت کا میزائل پروگرام، اس کی سوچ، اور اس کی سیاسی قیادت کس خطرناک راستے پر گامزن ہے۔ اگر دنیا نے بروقت آنکھیں نہ کھولیں تو یہی بھارت، جسے آج عالمی برادری "شراکت دار” سمجھ رہی ہے، کل عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn