Qalamkar Website Header Image

بھارت اور مشرقِ وسطیٰ: پاکستانی جامعات کی علمی غفلت کا شکار خطے

پاکستان کی ریاست، سیاست، معیشت، اور عوامی بیانیہ جن دو خطوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، وہ بھارت اور مشرقِ وسطیٰ ہیں۔ ایک طرف بھارت پاکستان کا ہمسایہ، حریف، اور تاریخی مخالف رہا ہے، جبکہ دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ نہ صرف مذہبی وابستگیوں کا مرکز ہے ۔بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے روزگار، ترسیلاتِ زر، اور تزویراتی تعلقات کا مرکز و محور بھی ہے۔ ان دونوں خطوں پر پاکستان کے میڈیا، سیاست، مذہب، اور عوامی سطح پر تو بھرپور گفتگو ہوتی ہے، لیکن پاکستانی  جامعات میں ان خطوں سے متعلق سنجیدہ علمی تحقیق، ادارہ جاتی تیاری، اور فکری گہرائی کا شدید فقدان ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ملک کی کسی بڑی جامعہ میں نہ بھارت پر، نہ مشرقِ وسطیٰ پر کوئی ایسا خصوصی اور فعال تحقیقی مرکز موجود ہے جو مستقل بنیادوں پر اس خطے کے حالات کا مطالعہ، تجزیہ اور رہنمائی فراہم کرتا ہو۔ اگر کچھ مراکز موجود بھی ہیں، تو وہ صرف نام کے لیے ہیں، ان کا تحقیقی کردار رسمی، غیر مؤثر اور خالصتاً روایتی ہے۔

پاکستان میں دو سرکاری سطح پر اور جامعہ بلوچستان میں ایریا اسٹڈی سینٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ عرب کنٹریز۔ لیکن یہ ادارہ بھی تحقیق کے میدان میں نہ تو کوئی ٹھوس علمی پیش رفت کر پایا ہے نہ ان کا اثر کسی پالیسی یا قومی بیانیے پر دکھائی دیتا ہے۔ اورانڈیا کے اوپر تو کوئی جامعہ بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتی ہے کہ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کا کوئی سنٹر موجود ہے ۔ ان کے تحقیقی جرائد محدود قارئین تک محدود ہیں، اور ان کی سرگرمیاں صرف سیمینارز اور رپورٹوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ نہ تو ان کے پاس جدید تحقیقی ڈھانچہ ہے، نہ بین الاقوامی ربط، اور نہ ہی وہ علمی تحریک پیدا کر پائے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  ایران پر اسرائیلی حملے اور ’’آئی اے ای اے‘‘ کا سازشی کردار

چند پاکستانی جامعات میں ساؤتھ ایشین اسٹڈیز یا ریجنل اسٹڈیز کے مراکز قائم ضرور ہیں، جیسے کہ پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، اور قائداعظم یونیورسٹی وغیرہ میں۔ لیکن ان کی علمی حیثیت بھی نہایت سطحی، محدود اور اندرونی نوعیت کی ہے۔ ان اداروں میں تحقیق نہ تو عصری تقاضوں کے مطابق ہے، نہ ان کی اشاعتیں بین الاقوامی سطح پر قابلِ ذکر ہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی ایسا اثر دکھائی دیتا ہے جس سے پاکستان کی علمی شناخت مضبوط ہو۔

یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ دنیا بھر میں بھارت اور مشرقِ وسطیٰ پر ہزاروں اسکالرز، مصنفین، اور تحقیقی ادارے متحرک ہیں۔ ان کی کتابیں عالمی جامعات کے نصاب کا حصہ ہیں، ان کے تجزیات پالیسی حلقوں میں سنجیدگی سے لیے جاتے ہیں، اور ان کا کام عالمی مکالمے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی جامعات سے وابستہ محققین عالمی سطح پر کہیں نظر نہیں آتے۔ نہ ان کی کوئی کتاب بین الاقوامی حوالہ بنتی ہے، نہ کوئی مضمون بڑے جرائد میں شائع ہوتا ہے، اور نہ ہی کوئی پاکستانی اسکالر ان موضوعات پر دنیا کے علمی حلقوں میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔

اساتذہ، محققین، اور طلبہ کی سطح پر بھی صورتِ حال مایوس کن ہے۔ بھارت یا مشرقِ وسطیٰ سے متعلق تحقیقی منصوبے یا تو موجود ہی نہیں، یا پھر سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ تحقیق کا معیار روایتی ہے، موضوعات پرانے ہیں، اور نتائج محدود۔ تحقیق کو پالیسی سازی، میڈیا بیانیے، یا عوامی آگاہی سے جوڑنے کی کوئی مؤثر کوشش دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بھی پڑھئے:  مستقبل کے معمار خطرے میں-نصیر عباس

یہ علمی غفلت پاکستان کو متعدد محاذوں پر غیر محسوس مگر گہرے نقصان سے دوچار کر رہی ہے۔ ہم اپنے گرد و پیش کے تغیرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سمجھنے کے بجائے دوسروں کے بیانیوں کی عینک سے دیکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس نہ تو خود ساختہ علمی تجزیہ ہے، نہ فکری پیش بینی کی صلاحیت، اس لیے ہم ردِعمل کی نفسیات میں گھرے رہتے ہیں۔ ہماری پالیسی سازی تخلیقی تدبر کے بجائے اضطراری ردِعمل کا عکس بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجتاً دنیا کے علمی افق پر پاکستان کی فکری پہچان دھندلائی ہوئی، غیر متعین اور کمزور نظر آتی ہے۔

ملک میں رائے عامہ کا خمیر سنجیدہ تحقیق کے بجائے میڈیا کے شور و غوغا اور سطحی پروپیگنڈا سے اٹھتا ہے۔ پالیسی ساز علمی رہنمائی سے محروم ہیں، اور تحقیقی ادارے محض رسمی سرگرمیوں تک محدود ہو چکے ہیں۔ پاکستان، عالمی علمی مکالمے میں ایک فعال شریک کار کے بجائے خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اور خطے سے متعلق ہمارے فکری بیانیے میں نہ تو گہرائی ہے نہ اثر پذیری۔ یوں علم و دانش کی دنیا میں ہمارا مقام وہ نہیں جو ہماری تاریخ، محلِ وقوع اور قومی اہمیت کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  میرے معاشرتی علوم کے ماسٹر جی اور آج کا پاکستان

بھارت اور مشرقِ وسطیٰ پر تحقیق اب محض ایک علمی مشغلہ نہیں بلکہ قومی مفاد، فکری بقا، اور نظریاتی آزادی کا بنیادی ستون ہے۔ جب تک پاکستانی جامعات اس سمت میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتیں، پاکستان نہ صرف علمی میدان میں پیچھے رہے گا بلکہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی دوسروں کا محتاج بنا رہے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم تحقیق کو صرف کمرہ جماعت تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے ریاست، سماج، اور دنیا سے جوڑ کر ایک زندہ علمی روایت قائم کریں

Views All Time
Views All Time
64
Views Today
Views Today
64

حالیہ بلاگ پوسٹس