آنکھ کھلتے ہی چڑیوں کی چہچہاہٹ نے اسے صبح کاذب کے طلوع ہونے کی نوید سنائی۔ دل کے کسی انجان گوشے میں پنہاں کسی خیال کی یاد نے اس کے خشک، کٹے پٹے ہونٹوں پر ایک اداس سی مسکراہٹ بکھیری۔ وہ ایکدم اٹھی اور جانے کی تیاری میں لگ گئی۔
سارے ضروری لوازمات لے کر وہ ماں اور بھائی کے ساتھ گھر سے روانہ ہوئی۔
پچھلے ایک دو سالوں سے وہ ہر ایک خوشی کا تہوار اسی جگہ جاکر مناتی۔ اور آج تو عید کا موقع تھا۔ البتہ یہ اور بات تھی کہ پچھلے دو سالوں سے نہ تو ہاتھوں میں مہندی لگا پائی تھی اور نہ ہی چوڑیاں اسکے ہاتھوں کی زینت بنی تھیں۔ تنگدستی اور مفلسی کی ماری ماں میں اتنی استطاعت نہیں تھی کہ نئے جوڑے سلوا کے دے سکے۔ انتہائی نا خوشگوار اور تلخ تجربات پر محیط یہ دو سال اسے اور اس کے بھائی کو اتنا تو سکھا گئے تھے کہ وہ انتہائی ضرورت کی چیزوں کے لئے ہی ماں کو پریشان کرتے۔ کیونکہ ان کی ضرورت پوری نہ کرسکنے پر ماں جس کرب سے گزرتی وہ اس کے چہرے پر پڑی دائمی لکیروں میں ایک اور لکیر کا اضافہ کرتی اور وہ اپنی عمر سے مزید دس سال بوڑھی نظر آنے لگتی۔
پوری فضا میں اگربتیوں کی ایک عجیب سی مانوس سی خوشبو رچی بسی تھی۔ اب تو اس خوشبو سے اسے چڑ سی ہونے لگی تھی۔ اسے لگتا کہ اس خوشبو اور اس کی محرومیوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے وہ اپنی منزل سے قریب ہوتے گئے، خوشبو تیز ہوتی گئی۔
منزل مقصود پر پہنچے تو لوگوں کا ایک جم غفیر نظر آیا جو انہی کی طرح اپنی ادھوری خوشیوں کا ماتم کرنے اپنے پیاروں سے ملنے آئے تھے۔ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر انہوں نے پلاسٹک کے تھیلے سے اگربتیاں اور موم بتیاں نکالیں انہیں جلا کر باپ کی قبر پر سجایا۔ اس کا باپ دو سال پہلے دہشت گردی کے ایک واقعے میں شہید ہوا تھا۔ پھر سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد باپ کے سرہانے بیٹھ کر آہستہ سے سرگوشی کی،” عید مبارک بابا جانی”۔
اردگرد کی قبروں سے آہ و بکاہ اور سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں جو کبھی تیز اور کبھی مدھم ہو جاتیں۔ یہ جگہ ہزارہ کمیونیٹی پر ہونے والی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں شہید ہونے والوں کی قبروں کے لئے مختص کی گئی ہے۔ ہر طرف ایک دلخراش منظر تھا۔ کہیں کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کی موت پر نوحہ کناں تھی تو کہیں بہنیں اپنے اکلوتے بھائی کی یاد میں گریہ و زاری کر رہی تھیں اور کہیں معصوم بچے اپنے باپ کی شفقت کو یاد کر کے امڈتے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ غرضیکہ ان کو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔
یہ کسی افسانے یا ناول سے اقتباس نہیں ہے بلکہ ھزارہ قبرستان کی کئی سالوں پر محیط آہ و بکاہ کی داستان ہے۔ یہاں وہ نگینے بھی دفن ہے جنہوں نے کبھی فنون لطیفہ، سائنس، انجینیئرنگ، میڈیسن، ملکی دفاع، اور کھیل کے میدان میں اپنی چمک دمک سے ملک و قوم کی عزت و آبرو کو چار چاند لگائے تھے۔ یہاں ملک و قوم کے وہ معمار بھی منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہے ہیں جو یونیورسٹی جاتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہو کر ملک و قوم کا مستقبل سنوارنے کے خواب آنکھوں میں سجائے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہاں وہ دو سال کی بچی بھی دفن ہے جس کی عید کے دن لہو سے سرخ ہوتی ہوئی سفید فراک میں مسکراتی تصویر دیکھ کر بڑے بڑوں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہاں وہ معصوم بچے بھی آرام کی نیند سو رہے ہیں جن کے کھیلنے کھودنے اور شرارتیں کرنے کے دن ابھی شروع ہوئے تھے کہ کسی کی جنت جانے کی خواہش نے ان سے ان کی زندگیاں ہی چھین لیں۔ البتہ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ ادراک نہیں تھا کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں اس بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا جا رہا ہے۔
دو جیل نما علاقوں اور چند چیک پوسٹوں کے درمیان محبوس ہزارہ کمیونیٹی کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی سے ان کی زندگیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ نہ تو وہ بلا خوف و خطر اپنی ملازمتوں پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ تعلیم کے حصول کے لئے آزادانہ یونیورسٹی آ جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی تفریحی سرگرمیوں اور مقامات مثلا پارک وغیرہ تک ان کی رسائی ممکن ہے۔
ان تمام محرکات کے نتیجے میں جنم لینے والے ان گنت معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل نے ہزارہ کمیونیٹی کو چاروں طرف سے بری طرح جھکڑ لیا ہے۔ جذبہء حب الوطنی سے سرشار ہزارہ کمیونیٹی نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کے لئے جو قربانیاں دی ہے ان کا صلہ انہیں ان کے قتل عام کی صورت میں دیا گیا ہے۔ بجائے سزا دینے کے ان کے قاتلوں کو ملکی اثاثے سمجھ کر پالا پوسا گیا ہے۔ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے بجائے انہیں خود دو جیلوں اور تین چار چیک پوسٹوں کے درمیان قیدیوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn