ایک دن میں نے پوسٹ لکھی کہ جس جس نے حیدر جاوید سید صاحب اور مجھ سے ملاقات کرنی ہو ایکسپو لاہور آجائے کتاب میلے میں۔ تو ایک بندے نے کمنٹ کیا” بھائی جان آپ کی تو خیر ہے لیکن ہمیں حیدر شاہ صاحب کی بہت ضرورت ہے۔ ایسے سٹیٹس نا ڈالا کریں” پڑھ کر غصہ بھی آیا اور عجیب بھی لگا کہ بھائی میری کیوں خیر ہے؟ لیکن اس نصیحت میں ہمارے محترم حیدر جاوید سید صاحب کے ساتھ محبت جھلک رہی تھی۔
یہ کمنٹ کرنے والا عمران حیدر تھا (تھا لکھتے ہوئے حالت کا اندازہ بیان نہیں کر سکتا) اس کے بعد سے اس سے بات چیت شروع ہوئی۔ اس کے سارے کام کمال ہوتے تھے۔ اس قدر ہنس مکھ بندہ کم ہی ملتا ہے اب معاشرے میں۔ انباکس میں بات چیت چلتی رہتی تھی۔ ملاقات کے پروگرام بنتے تھے لیکن پایہ تکمیل تک نا پہنچ پائے۔ ہم دونوں ہی 30 40 کلومیٹر کا درمیانی فاصلہ طے نا کر پائے۔ عدنان نذر والے واقعے پر جس طرح اس نے کھل کر عدنان نذر کی حمایت کی اور ضیاء ناصر جیسے گندے کرداروں کو بے نقاب کیا اس کی قدر دل میں مزید بڑھ گئی۔
ہمیشہ عزت سے بلایا۔ ایک دن میں نے انباکس کیا کہ بھائی میں نے مولا علیؑ کی شان میں چار اشعار کہے تھے ۔ ان میں سے ایک شعر کو اگر کوور فوٹو کے لیے ڈیزائن کر دیں تو مہربانی ہو گی۔ لیکن اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو لازمی نہیں کہ بنا کر دیں گے۔ رات کو یہ بات ہوئی۔ صبح اٹھا تو انباکس میں ڈیزائن تیار پڑا تھا۔ آج بھی وہی فوٹو میری کوور فوٹو ہے۔ عمران حیدر کی ڈیزائن کی ہوئی۔
جب قادر غوری اور عون شیرازی کے کارٹون بنائے تو ایک کی پوسٹ پر میں نے بھی خواہش کا اظہار کیا۔ میں آن لائن نہیں تھا جب مجھے اس نے تصویر بنا کر ایک پوسٹ میں ٹیگ کیا۔ ان دنوں ایک "فیس بکی لڑائی” چل رہی تھی تو اسی مناسبت سے اس نے بڑا جارحانہ کارٹون بنا دیا۔ ساتھ میں ایک چھوٹی سی تحریر۔ میرے آن لائن ہونے پر مجھے دوستوں کے انباکس ملے کہ دیکھو عمران حیدر نے تمہارے خلاف کارٹون بنایا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ بھائی لوگو میں نے ہی کہا تھا کارٹون بنانے کا۔ اس کی محبت ہے کہ اس نے محنت کی۔ عمران حیدر کا بھی انباکس تھا کہ بھائی تصویر بنائی ہے ۔ لائیٹ ہی لیجئے گا۔ مذاق ہے۔ میں نے ڈی پی بنا لیا اس کارٹون کو۔ اگلی صبح انباکس میں ان کا ایک مزید میسج تھا ۔ اور ساتھ میں ایک ڈیسنٹ سا کارٹون۔ ساتھ میں ایک مذاق کہ ملک جی جے ہن وی کوئی کڑی نا پھسی ت فیر تسیں کوئی پٹھانی ای لے آیو ۔
کل جب ہسپتال سے عمار یاسر کاظمی کے کزن کےآپریشن کے بعد جناح ہسپتال سے 5 بجے کے قریب گھر پہنچا تو شاہ جی کی مسڈ کال تھی۔ میں نے کال کی تو انہوں نے فیس بک پر گردش کرتی عمران حیدر کی وفات کی اطلاع دی۔ ایک دم سے شاک لگا۔ اور کہا کہ نہیں یہ مذاق ہی ہوگا۔ پھر میاں حامد نے انباکس میں کنفرم کیا اور کچھ دیر بعد عمران حیدر کے بڑے بھائی سے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ جی آج صبح دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا عمران حیدر کا۔ جانے کیوں پھر بھی دل مان ہی نہیں رہا تھا۔ اتنے میں قادر غوری ، ظاہر شاہ، لالہ عارف خٹک سمیت متعدد لوگوں کی کالز آئیں کہ کیا یہ واقعی سچ ہے کہ عمران حیدر کی وفات ہو گئی ہے۔ لالہ عارف خٹک کو کہا کہ ان کے بھائی سے بات کرنے کے باوجود مجھے ابھی تک یقین نہیں۔ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ کل صبح اٹھیں تو ایک کارٹون ہو گا جس کے ساتھ اس نے لکھا ہو گا دیکھا کیسا لگا میری موت کی خبر سن کر۔ اور یوں وہ پھر ہمارے چہروں پر ہنسی بکھیرتا رہے گا۔ لیکن مجھ سمیت بہت سارے دوستوں کو عمران حیدر نے غلط ثابت کر دیا۔
عمران حیدر تم ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ کبھی ملاقات نا ہونے کے باوجود ایسا لگا کہ کوئی بہت ہی قریبی تعلق برسوں سے تھا۔ اور تمہارے جانے سے ایک خلا سا بن گیا۔ میرے یار عنقریب ہم بھی اب وہاں ہی ملیں گے جہاں تم پہنچ گئے۔ کہ آخر آنا تو ہمیں بھی وہاں ہی ہے۔ لیکن تم نے بہت جلدی کر دی۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn