انتخابات کے نتائج بھی قریب قریب مکمل ہو چکے جن کے حوالے سے مجھ سمیت کئی افراد اور جماعتوں کے علی الاعلان تحفظات ہیں لیکن پھر بھی یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ریاستی انتظام میں جمہوریت کا ممکنہ عمل دخل آگے بڑھا ہے اور یہ حقیقت بھی ایک دفعہ پھر بھی مسلّم ہوئی ہے کہ ریاستی انتظام میں عوام کی شرکت ہی اس انتظام کو قابل قبول بنا سکتی ہے ۔ایک اور امید افزا حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ عوام نے بھی گذشتہ مرتبہ سے زیادہ ذوق و شوق سے انتخابی عمل میں حصہ لیا ۔ملک میں امن و امان کی قدرے بہتر صورتحا ل کی وجہ سے وہ جماعتیں بھی انتخابی عمل میں شریک ہو پائیں، گذشتہ انتخابات میں امن و امان کی صورتحال نے جنہیں عملی طور پر دیوار سے لگا رکھا تھا ۔
لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جمہوریت کا اصل حُسن حق حاکمیت کا اخلاقی جواز ہے ۔جس پر ایک دفعہ پھرقریباٌ تمام جماعتوں کی طرف سے انتہائی سنجیدہ سوالات اُٹھائے جارہے ہیں ۔ کیا ان سوالات کے ضمن میں پھر سے وہی گذشتہ کہانی دہرائی جائے گی ؟اکثریتی جماعت کے سامنے آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ۔متوقع وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں اس مسئلہ پر مثبت پیش رفت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن نشری تقاریر سے یہ مسئلہ حل ہونے کا نہیں ۔
اس سے پہلے کہ یہ قضیہ کسی اور طرف نکل لے عمران خان پر واجب ہے کہ وہ سیاسی انداز سے اس کا کوئی سیاسی حل نکالنے کی طرف فوری توجہ دیں ۔ یہ بات اُن سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ملک جن حالات میں ہے کسی بھی قسم کی محاذ آرائی اور تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ انہیں سب سے پہلے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ملک کے معتبر سیاستدانوں کے ساتھ بلاتخصیص اور بلا تعصب اپنے فاصلے دور کریں اور ایک قومی مکالمے کی راہ ہموار کریں ۔
قومی مکالمہ اُن کے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس بھی ایوان میں انہیں حکومت بنانے کا اعتماد حاصل ہوا وہاں انہیں ایک بہت بڑی اور موثر حزب اختلاف کا سامنا ہو گا ۔ایک بااعتماد اور مضبوط حکومتی کارکردگی کے لئے اُن کے لئے ضروری ہو گا کہ ان ایوانوں میں کم سے کم اُن کے حق حاکمیت کے آئینی اور اخلاقی جواز پر سوالات نہ اُٹھائے جائیں کیونکہ ایسے سوالات انہیں خود غیر سیاسی ریاستی اداروں کی نظر میں کمزور کرتے چلے جائیں گے اور حکومت پر اُن کی گرفت کبھی بھی ایسی مضبوط نہیں ہو گی کہ جس کے ذریعے وہ عوامی توقعات پر پورا اُترنے کے قابل ہو سکیں ۔خود اُن کے اپنے بیانات اور طرز سیاست کی وجہ سے اُن پر اعتماد کرنے والے عوام نے اُن سے توقعات کے کوہ گراں وابستہ کر رکھے ہیں ۔جن کے پورا ہونے کے لئے میری ادنیٰ رائے میں وہ عوام انہیں بہت زیادہ وقت نہیں دیں گے ۔ انہیں اپنے کئے گئے وعدوں کے تناظر میں قومی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں جماعتی موجودگی پر بھی غور کرنا ہو گا کیونکہ قومی سطح پر کسی بھی قسم کی قانون سازی کے لئے انہیں سینٹ کی طرف دیکھنا پڑے گا جہاں اُن حزب اختلاف کی ناقابل تردید اکثریت بیٹھی ہوئی ہے ۔
جمہوریت باہم مل بیٹھ کر اتفاقات اور اختلافات سے گذرتے ہوئے ملک اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے عملی پیش رفت کا نام ہے لیکن مجھے کہنا پڑے گا کہ خود عمران خان نے ایسا ماحول پیدا کیا ہوا ہے کہ تمام سیاستدانوں کا اُن کے ساتھ مل بیٹھنا ایک کار دشوار ہے ۔انہیں خود کو سمجھانا پڑے گا کہ اب وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے راہنما نہیں بلکہ پورے ملک کے راہنما بننے جارہے ہیں ۔انہیں ایک اور پورا یو ٹرن اپنے سیاسی رویے میں لینا ہو گا۔
[poll id=”4″]
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn