گزشتہ دنوں جب ایک کرکٹ میچ میں پاکستان نے بھارت کو ہرایا تو ہمارے کھلاڑیوں پر انعامات کی برسات کر دی گئی۔ حکومت، فوج اور دیگر اداروں، مخیر افراد نے بھی دل کھول کرکھلاڑیوں کو انعامات سے نوازا۔دیکھا جائے تو یہ ایک اچھا عمل تھا کہ اس سے حوصلہ افزائی مقصود تھی لیکن سوچا جائے تو سوال ابھرتا ہے کہ اگر کوئی تنخواہ لے کر کام کرتا ہے تو اس میں ایسا کیا کمال؟ ہمارے کھلاڑی مختلف کیٹیگریز میں اچھی خاصی تنخواہ لے کر ملک کے لیے کھیلتے ہیں گویا کھیلنا بلکہ اچھا کھیلنا ان کا کام ہے جس کے لیے انہیں عوام کے ٹیکس سے تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں۔
ابھی کھلاڑیوں کی پذیرائی جاری تھی کہ دو افسوس ناک واقعات رونما ہوئے۔ ایک واقعہ غربت، جہالت اور( کسی حد تک شاید) لالچ کے نتیجے میں بہاولپور کے پاس پیش آیا۔ جبکہ دوسرا باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پارا چنار میں وقوع پذیر ہوا۔ ہمارے وزیراعظم بہاول پور آئل ٹینکر واقعے کی وجہ سے اپنا لندن کا دورہ مختصر کر کے تشریف لے آئے اور حادثے کی جگہ کا دورہ بھی کیا۔ مرحومین کے ورثاء اور زخمیوں کے لیے رقم کا بھی اعلان کیا۔آرمی چیف نے بھی ملتان کے ہسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت کی۔ یہ امر بھی قابل تحسین ہیں۔لیکن ایک سوال جواب کی تلاش میں ہے کہ کیا پارا چنار میں مارے گئے وہ بے گناہ لوگ، جو فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں جمعتہ الوداع کے دن آواز بلند کر رہے تھے، پاکستانی نہیں تھے؟ کیا وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر ایسے ادارے اور افراد، جو تین دن پہلے تک پہلےسے کروڑ پتی کھلاڑیوں پر پیسے، پلاٹ، عمرے اور دیگر انعامات کی برسات کر رہے تھے، کو پارا چنار نظر نہیں آتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ واقعہ پر احتجاج کرنے والوں کی دل جوئی کے بر عکس، ریاستی اداروں نے ان پر گولی چلائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس خبر کی کوئی خبر نہیں۔ کہنے والے جب کہتے ہیں کہ حکومت اور فوج صرف ایک صوبے کی ہے تو شاید اس کے پیچھے ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں جبھی ایسی باتوں کو تقویت ملتی ہے۔ کسی نے کہا خدا نخواستہ پارا چنار جیساواقعہ حکومت کے صوبے میں ہیش آیا ہوتا۔۔لیکن شاید تب بھی ایسی ہی بے حسی نظر آتی کہ شاید پارا چنار والوں کا خدا کوئی اور ہے اور وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں ۔ مرکزی حکومت کی بے حسی ایک طرف صوبائی حکومت کے کھلاڑی حکمران بھی ہمیشہ کی طرح اپنے صوبے میں ہونے والے قتل عام سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ یہ اور بات کہ کنٹینروں پر چڑھ کر مظلوموں اور مقتولوں کی بات ضرور کرتے ہیں۔ غلام محمد قاصر نےشاید انہی کے لیے کہا تھا:
دل میں مقتول کی تصویر لیے پھرتا ہوں
اور قاتل سے عقیدت کا بھی اظہار کروں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn