جب بنو امیہ نے مدینہ میں سیدالشہداء علیہ السلام پر بیعت کے لئے دباؤ بڑھایا تو آپ ؑ مدینہ چھوڑ کر مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ماہ شعبان کا بقیہ حصہ اور رمضان، شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا کچھ حصہ بیت اللہ الحرام کے سائے میں گذارا اور حج کے لئے احرام بھی باندھا۔
دوسری جانب سے عمرو بن سعید بن العاص (جو عمرو بن عاص کی نام سے مشہور تھا) یزید کی جانب سے مامور ہوا کہ مکہ جاکر امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے یا پھر آپ ؑ سے لڑے۔ وہ ترویہ کے روز (8 ذوالحجہ) کو مکہ پہنچا۔ امام حسین علیہ السلام کو مکہ اور اللہ کے حرمِ امن کے تقدس کی فکر تھی اور آپ ؑ جانتے تھے کہ یہ دشمنان خدا، اللہ کے حرم کے لئے حرمت کے قائل نہیں ہیں لہذا آپ ؑ نے حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور مکہ سے روانہ ہوئے۔ مکہ چھوڑنے کے لئے آپ علیہ السلام کا اصل محرک حرمت مکہ معظمہ اور حرم امن کی حرمت تھا چنانچہ جب آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مکہ سے چلے جانے سے منع کرنا چاہا اور آپ ؑ کو مکہ میں قیام جاری رکھنے کی ترغیب دلائی تو آپ ؑ نے فرمایا: «جان برادر! مجھے خوف ہے کہ یزید کہیں مجھے حرم میں ہی قتل نہ کر ڈالے اور میری وجہ سے اس گھر کی حرمت ہی پامال نہ ہوجائے۔» «عبداللہ بن عباس»، «فرزدق» اور «عبداللہ بن زبیر»، نے بھی قیام جاری رکھنے کی درخواست کی اور ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ (یزیدی) حرم کی حرمت کا خیال رکھیں گے مگر آپ ؑ نے ان کے جواب میں بھی فرمایا: «اگر میں حرم کی حدود سے ایک بالشت برابر فاصلے پر ماراجاؤں اور مکہ کی حرمت میری وجہ سے نہ ٹوٹے تو یہی میرے لئے بہت بہتر ہے»۔ بعد میں جب عبداللہ بن زبیر نے بنوامیہ کے خلاف قیام کیا اور بنوامیہ نے کعبہ کو منجنیقوں کا نشانہ بنایا اور عبداللہ ابن زبیرکو مسجدالحرام میں ہی قتل کرڈالا تو سب کو معلوم ہوا کہ ابن عباس اپنی مشہور دانشمندی اور ابن زبیر اپنی زیرکی کے باوجود بنو امیہ کے بارے میں غلطی پر تھے اور امام حسین علیہ السلام مستقبل کو کتنا واضح دیکھ رہے تھے۔
جب حجاج کرام مِنی کی جانب روانہ ہوئے تو امام علیہ السلام نے طواف کیا نماز طواف ادا کی اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تقصیر فرمائی (سرکے کچھ بال کٹوائے) اور احرام سے خارج ہوئے اور اس طرح آپ ؑ نے حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ جب یہ خبر محمد بن حنفیہ کو ملی تو وہ جلدی سے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ؑ کی اونٹنی کا کی لگام اپنی ہاتھ میں لے لی اور عرض کیا: "میرے عزیز بھائی! کون سی چیز اتنی عجلت سے آپ کے مکہ سے روانہ ہونے کا سبب ہوئی؟”
سیدالشہداء ؑ نے فرمایا: "کل رات کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ ﷺنے فرمایا: میرے لاڈلے حسین! خدا نے چاہا ہے کہ آپ کو مقتول دیکھ لے”۔ محمد نے کہا: “انا للہ و انا الیہ راجعون” اور پھر کہا: تو پھر ان خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے کر جارہےہیں؟”۔ فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ : خدا نے چاہا ہے کہ انہیں حالت اسیری میں دیکھ لے”۔ اس طرح امام حسین علیہ السلام حریم الہی کی حفاظت کی خاطر رسول اللہ کا حکم پاتے ہیں امر خدا کے احیاء کی غرض سے اہل و عیال اور بعض دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوئے اور عراق کی طرف چلے گئے۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 8 ذوالحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ سے خارج ہوئے البتہ ابن قولویہ نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ ساتویں ذوالحجہ کی ساتویں تاریخ کو مکہ سے روانہ ہوئے تھے ۔
نجانے کب مجھے احرام توڑنا پڑجائے
ترے لئے ہی ترے گھر کو چھوڑنا پڑ جائے
قمر رضا شہزاد
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn