جب یزدگرد کی بیٹی قید ی بنا کر خلیفہ دوئم حضرت عمر کے پا س لائی گئی تو مدینہ کی عو ر تیں اسے دیکھنے کے لئے اُمڈ آئیں جب آپ کو مسجد میں لایا گیا تو آپ کی نورانیت سے مسجد چمک اٹھی اور حضرت عمرنے اسے اختیا رکرناچاہا تو حضر ت امیرؑنے فرمایا تمہیں یہ حق نہیں ہے ، تم اسے یہ اختیاردو کہ وہ مسلما نوں میں سے جسے چاہے منتخب کرلے، تم اسے اس کے غنیمت کے حصے میں سے شما ر کر لینا حضرت عمر نے اسے یہ اختیار دیا تو اس نے آکر ہاتھ اما م حسینؑ کے سر پررکھ دیا۔ حضر ت علی ؑنے اس سے فرمایا تمہا ر ا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا جہان شاہ ۔ تو آپ نے فرمایا بلکہ شہر بانو، اس کے بعد اما م حسینؑ سے فرما یا اے ابا عبداللہؑ! اس لڑکی سے تمہا ر اجو لڑکا پیدا ہو گا وہ رو ئے زمین پر سب سے بہتر ہو گا ، اور حضر ت علی ؑبن الحسین علیہ السلام ان سے متولد ہوئے حضرت اما م زین العا بدینؑ کو ابن الخیر تین ( دو برگزیدہ کا بیٹا)کہتے تھے کیونکہ عرب سے خدا کا برگزیدہ جناب ہا شم تھے اورعجم سے فارسی ۔
روایات میں ہے کہ جب کسریٰ یزدگرد کی زوجہ ملکہ فارس بھی اپنے خاندان کو داغِ مفارقت دے گئیں تواب خاندان میں واحدخاتون شہزادی شہربانو تھیں جو اپنی والدہ کے فراق میں نڈھال تھیں‘وہ شب قیامت کی شب تھی جب آپ مالکِ کون و مکاں سے فریاد کناں ہوئیں تو اسی شب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم دختر سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا خواب میں آئیں تو تسلی و تشفی دیتے ہوئے کہا !’’بیٹی تم پریشان نہ ہو‘ تمہارے قلعہ پر اسلامی سپاہ کا دستہ حملہ کرے گا‘تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا‘ تمہیں مدینہ کی جانب لے جایا جائیگا جہاں تمہارا عقد میرے فرزند حسین ؑسے ہو گا‘‘۔
فتح ایران کے بعدجب حضرت شہربانو کو مدینہ لایا گیاتو سب قیدی مسجد نبوی ؐ میں موجود تھے حضرت علی ؑنے جناب شہر بانو کو دیکھا اور فرمایا
کہ تو آزاد ہے جس جوان مسلمان سے چاہتی ہو شادی کرلو ،شہربانو نے خاموشی اختیار کی حضرت علی ؑنے دوبارہ پوچھا کہ شادی کے بارے میں آپ کا کیا ارادہ ہے؟کس سے شادی کرنا چاہتی ہو ،اآپ نے مولا ؑ سے پوچھا کہ آپ کیسے معلوم میں شادی کا قصد رکھتی ہوں؟مولا نے فرمایا :کہ جب بھی کسی لڑکی کو رسول خدا ﷺ کے پاس لایا جاتا تو اسی طرح پوچھتے تھے اور جب لڑکی خاموش رہتی تو رسول خدا ﷺ رضایت سمجھتے تھے ۔حضرت شہربانو نے امام حسین کو انتخاب کیا ۔
روایت کے مطابق یہ جمعہ کا دن تھا اور امیرالمومنینؑ نے آپ کا عقد حضرت امام حسینؑ سے کر دیا۔ یوں آپ اہلِ بیت کے گھر کا حصہ بنیں اور آنے والے نو اماموں کی والدہ ماجدہ کا اعزاز بھی عطا ہوا۔ جب تک وہ آپ کے عقد میں رہیں‘ شہزادۂ کونین نے دوسری شادی نہ کی۔
لیکن ایک سال بعد اڑتیس ہجری کو زریرخزاعی مدینہ سے کوفہ آیا اور امام کو اطلاع دی کہ آپ کے گھر میں آپ کے جانشین کی آمد کسی بھی وقت متوقع ہے۔سیدنا امام حسینؑ نامساعد حالات میں بابا کو چھوڑ کر جانے کیلئے تیار نہ ہوئے تو اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس بابت آگاہ کیاتو آپ نے امام عالیٰ مقامؑ کو فی الفور مدینہ جانے کا حکم دے دیا۔ حسینؑ اپنے بابا کے حکم کے سامنے ہمیشہ سر تسلیمِ خم کر دیتے تھے۔ آپ اٹھارہ شعبان اڑتیس ہجری کو مدینہ پہنچے جبکہ آپ کے فرزند علی زین العابدین پانچ شعبان کو اہلِ بیت کے گھر کو روشن کر چکے تھے۔
حضرت امام زین العابدین ؑکا اسم گرامی علی کنیت ابو محمد ابو الحسن اور ابو القاسم تھی جبکہ القابات بہت زیادہ ہیں جن میں سے زین العابدین سید الساجدین اور عابد زیادہ مشہور ہیں۔ آپ ؑ حسن وجمال اور صورت وکمال میں بے مثال تھے جب بھی کسی کی نظر آپ کے چہرہ مبارک پرپڑتی تو وہ بے اختیا ر آپ ؑکی تعظیم کرنے لگتا تھا۔ آپ ؑانتہائی نرم خو اور غریب نواز تھے فقرائے مدینہ کے 100 گھروں کی کفالت فرماتے اور تمام ضروریات زندگی کاسامان ان تک پہنچاتے ۔ آپؑ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ چشم و چراغ ہیں جو علوم دینی کا سرچشمہ ہیں آپؑ کے اجداد علم وعمل کے مجمع البحرین ہیں ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا نام نامى، اسم گرامی روحانی اقدار کے ہیرو کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ زہد وتقویٰ اور عبادت سمیت انسان کی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات و کمالات کو دیکھا جائے تو وہ ایک ایک کر کے امام سجاد علیہ السلام میں واضح طور پر موجود ہیں، ہم جب خاندان رسالت پر نظر ڈالتے ہیں تو امام سجاد علیہ السلام چودھویں کے چاند کی مانند دمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جس طرح آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کو کام کرنے کا موقعہ نہ دیا گیا اسی طرح آپ بھی مصیبتوں، ارمانوں اور پریشانیوں کی وجہ سے وہ نہ کرسکے جو کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کچھ وقت امام جعفر صادق علیہ السلام کو میسر ہوا اور آپ نے بہت کم مدت میں علم و عمل کی ایک دنیا آباد کردی۔ آپ نے علوم آل محمد ﷺکو دنیا بھر میں پھیلایا۔ بہر کیف جو شخص اسلام کا سچا خدمت گزار ہو وہ تمام کلمات میں رضائے الہٰی کو مد نظر رکھتا ہے، وہ مشکلات اوسہولیات کو نہیں دیکھتا، بس کام کرتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ رب العزت کی طرف سے بلاوا آجاتا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت کو دیکھ کر اور دعاؤں کو پڑھ کر ملت جعفریہ کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، آپ کی دعا میں التجا بھی ہے اور دشمنوں کے خلاف احتجاج بھی۔آپ کی دعا میں تبلیغ بھی ہے اور خوشخبری بھی۔ گویا برکتوں، رحمتوں کی ایک موسلا دھار بارش برس رہی تھی۔
مغالطہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ چونکہ امام سجاد علیہ السلام نے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد تلوار کے ذریعہ جہاد نہ کیا اس لئے آپ نے دعاؤں پر اکتفاء کی اور غموں کو دور کرنے کیلئے ہر وقت دعا مانگا کرتے تھے؟
ایسا ہر گز نہیں ہے آپ نے اپنے والد گرامی کو زندہ کرنے کیلئے اس کی یاد کوہر وقت تازہ کیے رکھا۔ دنیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے کربلا کو کربلا بنایا ہی سید سجاد ؑ نے ہے۔ آپ کا اپنے پیاروں کی یاد میں گریہ کرنا بھی جہاد تھا۔ آپ دنیا والوں کو بتانا چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کا مقصد قیام کیا تھا۔ آپ نے اتنی تکلیفیں پریشانیاں برداشت کیوں کىں؟ آپ پر ظلم کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ یہ سب کچھ سید سجاد ؑ ہی نے بتایا ہے۔ (میرے نزدیک امام سجاد علیہ السلام کی مصیبت کا باب ہی سب آئمہ علیہم السلام کے مصائب سے الگ اور انوکھا ہے۔ پھر والد گرامی اور شہدائے کربلا کی شہادت کے بعد آپ نے جس انداز میں یزیدیت کا جنازہ نکالا اور اپنے عظیم بابا کا مقصد شہادت بیان کیا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ بول اٹھا سید سجاد ؑ ! تیری عظمتوں کا کیا کہنا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn