ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اسلام سے زیادہ مسلک کی اہمیت ہے۔ بڑے سے بڑا جرم بهی مسلکی ہم آہنگی کی وجہ سے قابل معافی ہے جبکہ اچهے سے اچها کام بهی مسلکی اختلاف کو لے کر ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ مولانا الیاس گهمن کے متعلق جو باتیں فیس بک پر گردش کر رہی ہیں، ضروری نہیں کہ سو فیصد درست ہوں مگر سو فیصد غلط بهی نہیں کہا جاسکتا لیکن رعایت اللہ فاروقی صاحب کی سادگی پہ مرجانے کو جی چاہتا ہے کہ وہ تب تک ان الزامات کو سیریس نہیں لیں گے جب تک عدالت گهمن کو مجرم قرار نہ دے دے کیونکہ گهمن صاحب ان کے نہ صرف قریبی دوست ہیں بلکہ ان کے والد محترم کے شاگرد خاص بهی ہیں۔
فاروقی صاحب کے خیال میں گهمن کی ذہانت ہی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ "اندر کی خبروں سے اتنی بےخبری بهی اچهی نہیں فاروقی صاحب” میرا خیال ہے کہ فاروقی صاحب کو اعلیٰ سیاسی و صحافتی و سفارتی و فوجی تعلقات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ "مدارسی” تعلقات بهی قائم کرنے چاہیئں تا کہ مدارس کے اندر کی خبروں سے بهی واقف رہیں کیونکہ یہ محکمہ ان چاروں سے بهی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہاں کی خاص خبریں خاص لوگ بهی لکهنے کی جرات نہیں کر پاتے۔
جناب عالی یہ معاملہ قریبا ایک سال پرانا ہے۔ سمیعہ زین العابدین جو خود ایک بڑے عالم دین کی بیٹی ہیں، کا مقصد اگر مولانا الیاس گهمن کو بدنام کرنا ہوتا تو میڈیا و سوشل میڈیا پر یہ کام کب کا ہوچکا ہوتا۔ ان محترم خاتون نے مولویانہ نظام کے مطابق مختلف مدارس سے فتوے طلب کیے، بڑے بڑے علماء کو خط لکهے ۔مگر نتیجہ مسلک کے مقابل "زیرو بٹا لل” نکلا۔۔۔ کہ اس سے مسلک بدنام ہوجائے گا۔ اب بهی ان خاتون نے دارلافتاء کو فتوی لینے کی غرض سے ہی کہ "میں الیاس گهمن کے نکاح میں ہوں یا نکاح ختم ہو گیا ہے” خط لکها تها جو "لیک” ہو گیا اور پانامہ لیکس کی شکل اختیار کر گیا۔ بات سوشل میڈیا تک پہنچی اور فیس بک والے تو ہوتے ہی اس انتظار میں ہیں کب کوئی خبر ہاتھ آئے اور وہ پانی سے مکهن نکالیں۔۔ جہاں تک عدالت سے رجوع کرنے کی بات ہے تو مولویانہ نظام میں دارالافتاء ہی سب سے بڑی عدالت ہے اور چونکہ وہ خاتون اسی ماحول سے تعلق رکھتی ہیں تو انهوں نے اپنے سسٹم کی عدالت سے رجوع کیا۔
میں نے اپنی کتاب "اسلام کو مولوی سے بچاؤ” میں مدارس کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی اور صرف نظریاتی و تاریخی اختلاف کیا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے اکثر مدارس کا ماحول "فرنگیانہ” ہے۔ جس تعداد میں کیسز ظاہر ہورہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ کیسز ہزار پردوں کے پیچےے چپےک ہوئے ہیں۔ جب بهی کوئی دبے الفاظ میں مولوی کی دین فروشی یا حرص و ہوس کا ذکر کرتا ہے تو فوراََ اسلام کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور اسلام کو بچانے کے چکر میں یہ معاملات روز بروز بڑهتے جارہے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ الیاس گهن اگر مجرم ثابت ہو بهی گیا تب بهی وہ مسلک کے پیروکاروں کے کے لیے ولیءکامل ہی رہے گا جسے سازش کے تحت پھنسایا گیا۔
یہ سچ ہے کہ الیاس گهمن کو مجرم کبهی بهی ثابت نہیں کیا جا سکے گا مگر اس کی حقیقت جان کر انسانیت بهی شرمانے لگی ہے۔ کیا طالبات بیٹیاں نہیں ہوتیں؟ کیا سوتیلی بیٹی، حقیقی بیٹی سے مختلف ہوتی ہے؟ لوگو! گواہ رہنا: یہ دین فروش ملاں میرے نبیﷺ کے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اصلاح کے لیے نبی مبعوث ہوئے۔ یہ لوگ میرے نبی ﷺکو اذیت پہنچا رہے ہیں۔ لوگو آنکهیں کهولو! پہچانو ان شیطانوں کو جو ہر مسلک میں موجود ہیں۔ ان دین فروشوں، ہوس کے پجاریوں کے سامنے ڈٹ جاؤ۔ ورنہ کل قیامت کے روز سوائے رسوائی و شرمندگی کے ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا۔ علماء سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے اندر کے ڈر کو باہر نکالیے۔ اور کهل کر مذمت کیجے ن ان دین فروشوں کی۔ آخرت کی عزت ، اس ظاہری شان و شوکت سے بہرصورت بہتر ہے۔ مسلکی رسوائی، اسلام کی رسوائی سے بہتر ہے۔۔۔ مسلک تو بس ایک ہی ہے۔۔۔ "حق پر ڈٹ جانا”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn