’’عالمی اردو افسانہ میلہ 2016‘‘
عالمی افسانہ فورم
افسانہ نمبر 10 ” بغلوں میں دبے بُت”
افسانہ نگار:۔ محمد عثمان عالم
شہر/ملک:۔ راولپنڈی/پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
موذن نے اذان آدھی کیوں دی؟
کا فی دیر وہ بستر پر لیٹا سو چتا رہا ۔
اُس کی عارضی یاداشت سے مستقل یاداشت میں یہ چیز محفوظ ہو رہی تھی کہ جب موذن آدھی اذان پر پہنچا تو مسجد کا بڑا مینار با لکل خاموش ہو گیا۔
پنکھا اپنی مخصوص گردش میں تھا۔جس کا مطلب بجلی کی موجود گی تھی۔
’’تو پھر اذان آدھی کیوں؟‘‘
دونوں ہا تھ اپنے کا ن کے قریب لے جا کر اُس نے تا لی کی آواز پیدا کی۔اُسے شک گزرا کہیں وہ بہرے پن کا شکارنہ ہو ۔ مگر کان آواز سے آشنا تھے۔
اُسے خیال گزرا کہ شاید وہ نیند میں ہو اور اذان پو ری ہو چکی ہو۔
لیکن
وہ تو اذان کا جواب سا تھ سا تھ دے رہا تھا۔
وہ گھر سے نکلا اور مسجد میں داخل ہو گیا۔
مو ذن سے پو چھا :
’’کیا آج اذان آدھی تھی ؟‘‘
وہ بولا :
’’ اذان تو پو ری تھی ‘‘
’’ تو پھر مجھے کیوں آدھی سنا ئی دی ‘‘
’’کیا کہہ سکتا ہوں ‘‘
پھر اُسے گما ن گزرا کہ اذان تو پو ری تھی مگر اذان سے قبل سلام نہیں پڑھا گیا۔
وہ موذن سے بو لا :
’’تم نے آج سلام نہیں پڑھا ‘‘
پھر خود ہی سوچنے لگا کہ سلام تو سُنا تھا۔ اذان بھی ٹھیک تھی۔
لیکن
ایک وہم نے اُسے جکڑلیا۔۔اذان نہ صرف پوری تھی
بلکہ عام اذان سے کچھ زیا دہ ہی لمبی تھی۔
’’اذان لمبی تھی‘‘
’’ہاں لمبی ہو گئی تھی ‘‘
’’اتنی لمبی کہ نما زیوں کی نما زیں قضاء ہو گئیں‘‘
موذن آنکھوں سے معا ئنہ کر تے ہو ئے بو لا:
’’آپ کون‘‘
وہ لمبی سوچ کے بعد بولا:
’’مسلمان‘‘
’’اور مکتبہ فکر‘‘
’’مکتبہ فکر‘‘
وہ سو چتا رہا کہ کس خاص مکتبہ فکر سے اُس کا تعلق ہے۔
وہ انہیں منتشر سوچوں کے ساتھ نماز کے لئے اُٹھا۔
وہ نماز کے لئے کھڑا تھا۔ نماز اُس کے لئے ایک معمہ بن گئی وہ ہاتھ باندھے قیام کر تا رہا۔
دماغ کی بیٹھک میں نعت خوانی کی محفل سجا ئے وہ سرکار کے حضور ہدیہ عقیدت کسی مخلص اور تابعدار غلام کی طرح پیش کرنے لگا۔
پھر وہ کسی مو لوی کی دُعا میں شامل تھا۔ جو تابعین،تبع تابعین ،اولیا ء کرام اور فقرا کی بارگاہ میں بڑی عاجزی سے سامنے رکھا جمعرات کا کھا نا پیش کر رہا تھا۔
وہ رُکوع میں سیدھا چلا گیا پھر اُسے یاد آیا کہ اُس نے رفع یدین توکیا ہی نہیں۔
’’ رفع یدین ‘‘
’’وہ اُٹھا اور رافع الیدین کرنے لگا ‘‘
وہ رفع یدین کرتا رہا اور دماغ کی بیٹھک کے دوسرے کونے میں بیٹھا شخص اُس کے نذرنیاز‘جمعرات چہلم‘ مزارو مجاورکو بدعت قرار دیتا رہا۔
اور پھر اُسی دسترخوان پر کربلا کا میدان بچھ گیا۔ گھوڑے کے ٹاپوں سے اُٹھنے والی گرد سے اصغر کا چہرہ اٹ گیا وہ خشک ہو نٹوں پر
پیاس کا گھڑا رکھے سکینہ کو دیکھتا رہا۔
عباس کے علم کے نیچے اُس نے اپنی نماز پُوری کی۔ وہ نماز پُوری کر چکا تو دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا ئے۔
اُٹھے ہا تھوں کی انگلیوں کی پُوروں پر اُس کی آنکھوں کا پا نی خشک ہو نے لگا۔ اور خشک آنکھوں میں تلاش کا گھوڑا بھٹکنے لگا۔
’’مانگے تو مانگے کس سے ‘‘
وہ سوچ کے پرندے پر سفر کر تا ہو ا اﷲ سے عرض کر نے لگا اور عرض کر تا رہا یہا ں تک کہ پرندے کے پر دعا کی قینچی سے کترنا شروع ہوگئے اُسے یا د آنے لگا کہ وہ تو سرکار کا غلام ہے اور کٹے پروں والے پرندے کے پَر پھر جڑنا شروع ہو گئے اور دُعا اور درخواست کا محور بدل کر سبز گنبدکی سنہری جالیوں پر آگیا۔
اور وہ آنکھ کے دریا میں محمدﷺ کی کشتی چلانے لگا۔
اور کشتی نجانے کب فرات کے کنا رے جا لگی اور دعا میں مولائے حسین کا خون بہنے لگا اور وہ علی مشکل کشا سے مانگنے لگا۔
اُس کی دماغ کی لکیروں میں اُلجھا ؤپیدا ہو گیا۔
اور الجھا ؤ کے کٹورے میں
اﷲ‘محمد‘ علی
محمد‘ اﷲ ‘علی
علی‘محمد‘اﷲ
اﷲ‘علی‘ محمد
محمد‘علی‘اﷲ
گڈ مڈ ہونے لگے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn