"ایک ضروری اعلان سنیئے۔ حاجی مولا داد کی بیٹی،محترم فضل حسین کی زوجہ، کریم جان، علی داد اور تیمور علی کی والدہ، کونسلر اور مشہور سماجی کارکن حاجی خداداد کی بہن کا انتقال ہو گیا ہے۔ نماز جنازہ آج 3 بجے شہر کےقبرستان میں ادا کی جائیگی۔ آپ سب سے شرکت کی درخواست ہے(فرضی ناموں کا استعمال ہوا ہے)
زندگی گزر گئی اس قسم کے اعلانات سنتے سنتے ۔ عورت یا لڑکی کسی بھی عمر کی ہو اس کی موت کا اعلان اسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار پاکستان کے مختلف علاقوں میں رائج ہے۔ جس میں خاتون کی خاندان کے ہر عمر کے مردوں اور لڑکوں کا نام لے کر مساجد اور امام بارگاہوں میں انتقال کے اعلانات کئے جاتے ہیں ۔ اب تو یہ اعلانات وقت کی بچت کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے اور پوسٹ کے ساتھ مرحومہ کے شوہر یا بیٹے کی مسکراتی ہوئی بہت اچھی تصویر کا انتخاب کرکے اپلوڈ کیا جاتا ہے۔ ہاں ایک بات ماننا پڑے گی کہ ہمارا معاشرہ بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرحومہ کا نام قبر کے کتبے پر لکھوا کر حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی کوشش ضرور کرتاہے۔
انسان کی شناخت انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک دائمی مسئلہ رہا ہے ۔ مضبوطی سے پنجے گاڑے پدرسری معاشرتی نظام میں عورتوں کو بالخصوص اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شناخت پیدا کرنے کے لئے کوئی ذاتی خوبی، صلاحیت اور غیرمعمولی شخصیت ہونی چاہیے ۔ ہمارے ملک کی لڑکیوں اور عورتوں میں خوبیاں تو بدرجہ اتم موجود ہیں مگر اکثریت کو وہ شخصی آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مردوں کی طرح وسیع کر سکیں ۔
عورت کی زندگی میں اس کو مختلف رشتوں کے حوالے سے بلایا جاتا ہے ۔ یا بہت روایتی قسم کے نام جیسے "سیاہ سر” لفظی معنی "کالا سر” )معذرت کے ساتھ مجھے آج تک اس لفظ کا پس منظر یا مفہوم سمجھ نہیں آیا( اکثریت خاندانوں میں تو نئی نسل کو اپنے خاندان کی بزرگ خواتین کا نام تک پتہ نہیں ہوتا۔کہا جاتا ہے کہ قیامت کے روز ہر مرد و زن کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔ اس بات کی دلیل جو بھی ہے میں تو سادہ سا مطلب یہ اخذ کررہی ہوں کہ عورت کا نام پکارنا غیر مذہبی اور غیر شرعی ہرگز نہیں ۔ حضرت محمد ﷺ کے خاندان کی پاک بیبیوں کے نام بھی ہم کھلم کھلا اور باآواز بلند پکار سکتے ہیں تو وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پرہمارا معاشرہ ایک عورت کو معمول کے مطابق ان کے نام سے بلانے سے گریزاں ہیں۔
اب اس تحریر کو پڑھتے ہوئے اکثریت دل ہی دل میں یا برملا مجھے برابھلا کہتے ہوئے اس امر کا اظہار کریں گے کہ ہم تو عزت دیتے ہیں خواتین کو تبھی نام سے نہیں پکارتے۔میں یہ پوچھنا چاہوں گی کہ نام لے کر عزت دینے میں کیا مسئلہ درپیش ہے۔ وہ کون سی فرسودہ روایات ہیں جو کہ عورتوں کو ان کی شناخت دینے میں رکاوٹ ہیں ۔ وہ کون سے نام نہاد شرم وغیرت کے عوامل ہیں جو عورتوں کی شناخت کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیتے۔ مجھےغیرت اور رسم و رواج سے زیادہ مردوں کی ذاتی انا کا مسئلہ معلوم ہوتاہے کہ وہ بسا اوقات اپنے گھر کی عورتوں کی قابلیت اور صلاحیتوں کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور یہی بنیادی وجہ ہے۔ نام لے کر عزت دیں گے تو پتہ بھی چلے گا کہ عزت کس کو دی جا رہی ہے ۔۔
فاطمہ عاطف کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور امن و ثقافت کے لئے کام کرنے والی سرگرم کارکن ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز سے منسلک ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر نہ صرف ہزارہ بلکہ تمام طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn