بادشاہت میں اختیارات کا ارتکاز ہوتا ہے بادشاہ وقت کی خواہشیں اور ان پر عملدرآمد کے قوانین ہوتے ہیں انہی کو قانون کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور پھر خواہشوں کی تکمیل کے لئے ریاست کے وسائل اور عوام کا سرمایہ جو ایک زمانہ میں لگانوں کی صورت وصو ل ہوتا تھا بے دریغ استعمال ہوتا تھا- ایسی ہی ایک خواہش مغل بادشاہ شاہجہان کے زمانہ میں تاج محل کی تعمیر میں سامنے آئی تھی- جو بادشاہ نے اپنی محبوبہ ممتاز محل کی موت پر یادگار کے طور بنوایا تھا ممتاز محل اپنے عاشق کے چودھویں بچے جنم دیتے ہوئے لقمہ اجل بن گئی تھی- بادشاہ وقت نے اس حادثے سے متاثر ہو کر کوئی ہسپتال‘ مطب یا علاج گاہ نہیں بنوائی تھی یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جا رہی تھی جہاں سے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے حکمران طبقے تعلیم حاصل کرتے اور اس پر فخر کرتے ہیں- اس تاج محل کو دیکھ کر ساحر لدھیانوی نے اپنی خیالی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا-
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ کو
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
یہ بادشاہوں کی پرانی باتیں ہیں آج کے بادشاہ بھی ارتکاز اختیار کو پسند کرتے ہیں‘ وزارتیں‘ مشاورتیں سب انہی کی خواہشوں کے غلام ہیں‘ وہ بادشاہ تھے یہ فیکٹری اونر یا کارخانوں کے مالک ہیں جہاں صرف مالک کا ہی حکم چلتا ہے باقی سب محنت کش اور مزدور ہوتے ہیں جو مصنوعات کی پیداوار‘ ان کی مارکیٹنگ اور ترسیل کا کام کرتے ہیں- ظاہر ہے کہ جب حکمران‘ صنعتکار اور تاجر ہونگے تو پھر اولین ترجیح بھی صنعتی پیداوار اور تجارت ہوگی اور پھر مارکیٹنگ کے لئے ذرائع نقل و حرکت کو بہتر اور یقینی بنانے پر توجہ مرکوز ہوگی تاکہ کم از کم وقت میں پیداوار کو منڈیوں تک رسائی ہو- موٹرویز بنائے جائیں‘ سڑکیں اور پل‘ انڈرویز اوور‘ فلائی اوورز اور ان پر زیادہ سے زیادہ چلنے والی بسیں اور ریل گاڑیاں یعنی اورنج ٹرینیں‘ میٹروبسیں……لیکن نہ یونیورسٹیاں نہ ہسپتال‘ ویسے بھی جب حکمران طبقے تعلیم اور علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو پھر محنت کشوں‘ غریبوں اور مسکینوں کے لئے ضروری تو نہیں انہیں بھی صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں‘ انہیں پرائیویٹ شعبے کی بنائی ہوئی قتل گاہوں میں پھینکنے اور انہیں حرص و ہوس کے دوزخ میں جھونکنے سے کیا برائی ہے-
کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں اپنی عزت کھو چکی ہیں انہیں اب کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں‘ پنجاب یونیورسٹی کا ایک زمانہ میں معیار تھا وہ بھی محض نام کی رہ گئی ہے‘ رہی سہی ساکھ پاکستان میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور سکولوں نے پوری کردی ہے-
پھرتے ہیں لوگ خوار کوئی پوچھتا نہیں
پاکستان کے مجبور اور بے بس عوام کی تذلیل کے یوں تو اور بھی بہت سے سامان ہیں وہ اس پر نادم اور شرمندہ بھی ہیں لیکن وہ حکمران جو خود کو شیرشاہ سوری کہلوا کر فخر محسوس کرتے مگر بادشاہی کو آئیڈیلائز کرکے ذرا ندامت محسوس نہیں کرتے ان کے لئے تازہ ترین رپورٹ کا ایک آئینہ سامنے تو آیا ہے مگر وہ اس میں جھانکنے اور اپنے چہرے پر سچی لکیروں کو دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ آئینہ دیکھنے سے لکیروں کی پہچان کا یہ سفر ضمیر تک چلا جاتا ہے اور اسے جھنجھوڑ بھی سکتا ہے مگر حکمرانوں کا باضمیر ہونا بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے جس کے نتیجے ایک نکتہ بھی ہوتا ہے‘ بہرحال رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں جو پانچ ہزار ہسپتال پہلے درجات میں شامل ہوتے ہیں ان میں سے ایک بھی اس مملکت خداداد کا نہیں- ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ہندوستان کے پانچ ہسپتال اور ہم سے علیحدہ ہونے والے بنگلہ دیش کا ایک ہسپتال شامل ہے-
شرم ہم کو مگر نہیں آتی
گذشتہ دنوں اپنے ایک عزیز کے باعث ہمیں سرچ کرنے کا موقعہ ملا جس میں ہم یہ تلاش کر رہے تھے کہ کوئی پاکستان میں ایسا ہسپتال ہے جہاں دل کے ’’والو‘‘ لیک ہونے کا کوئی علاج ہو تو اس کا جواب نفی میں تھا‘ سرکاری سطح پر تو کیا پرائیویٹ شعبے میں بھی ایسا کوئی ہسپتال نہیں نہ تو یہ صلاحیت کسی ڈاکٹر کے پاس ہے اور نہ ہی کسی کے پاس ’’والو‘‘ تبدیل کرنے کا ہنر…… مریض صرف بے بسی میں خود کو موت کے حوالے سے ہی کرسکتا ہے اسی تلاش میں ہم کو اس حوالے سے ہندوستان میں کئی ہسپتالوں کا پتہ چلا اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں تو مصنوعی دل بھی پلانٹ کئے جا رہے ہیں-
بہرحال…… دوستو بات تو آئیڈیلز کی تھی جیسے حکمران ہوں گے ویسے ہی ان کے آئیڈیلز ہونگے ظاہر ہے کہ کوئی بزنس مین برٹینڈرسل‘ چی گوہڑیا یا بلونرودا کو تو آئیڈیل نہیں بنائے گا- مان لیجئے کہ وہ تو غیر اور کافر ہیں وہ تو شاہ حسین اور بلھے شاہ کو بھی آئیڈیلائز نہیں کرسکتے کہ وہ بھی تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے اور انہوں نے تمام عمر مزاحمتی اور ملامتی کردار ادا کیا تھا-
یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ عوام کے نمائندہ بن کر ان سے ہمدردی کا اظہار بھی کرتے ہیں وہ عوام جن کو دو وقت کی روٹی میسر ہے نہ معاشی اور معاشرتی تحفظ‘ تعلیم نہ صحت‘ وہ حشرات الارض کی طرح زمین پر رینگتے اور پاؤں تلے روندے جانے کے بعد زمین ہی کا رزق بن جاتے ہیں- ان بے چاروں کا آئیڈیل صرف اور صرف دو وقت کی روٹی اور چار دن کی محفوظ زندگی ہوتی ہے-
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn