جب جیدے کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے کا وقت آیا تو اس نے جیل کی کال کوٹھری میں رکھے اپنے سامان پر ایک نظر دوڑائی۔ چند پرانی شلواریں، دو پھٹی ھوئی بنیانیں، ایک چائے کا مگ جو پچھلی ملاقات پر اس کی بوڑھی اماں نے بھجوایا تھا، قرآن مجید کا ایک بوسیدہ نسخہ، جائے نماز اور ایک پرانی لیدر کی جیکٹ۔اس نے اپنا سامان سمیٹ کر رکھنے کے لئے جیکٹ کو ہاتھ لگایا تو اس سے دو سکے نیچے گر پڑے۔پانچ روپے کا ایک سکہ اور دو روپے کا ایک سکہ یعنی کل ملا کر سات روپے۔اس نے وہ سات روپے اٹھا کر جیل کے داروغہ کے ہاتھ پر رکھے اور پھانسی گھاٹ کی جانب چل دیا۔
جیدا چور ایک بدنام زمانہ ڈکیت اور اسمگلر تھا جس پر چھ قتل، ڈرگ اسمگلنگ کے درجنوں مقدمات، بینک ڈکیتی اور چوری کے الزامات تھے۔کئی مرتبہ جیدے کو جیل ھوئی مگر شہر کے بااثر افراد اور سیاستدان جیدے کی ضمانت کروا لیتے کیونکہ جیدا ان کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک تھا۔جیدا جب بھی جیل سے چھوٹ کر آتا پہلے سے زیادہ دلیر اور ظالم بن کر نکلتا۔معمولی چوری چکاری کی عادت نے پہلے اسے اچھوں کی صحبت سے نکال کر بروں کی صحبت میں بٹھایا اور محلے کے لوفر لفنگوں کے توسط سے اس کے رابطے نشئی افراد سے ھو گئے۔نشہ کی لت پڑی تو چوری چکاری سے ڈکیتی اور ڈکیتوں کی سنگت نے جیدے کو ریپ، اغوا برائے تاوان اور کرایہ کے قتل جیسے گھناونے جرائم کا عادی بنا کر معاشرے کے لئے ایک ناسور بنا دیا تھا۔
اسے آخری دفعہ جیل آج سے پندرہ سال پہلے ہوئی جب اس نے بینک واردات کے دوران مینجر کو گولی مار کر قتل کر دیا۔جیدے کو اس قتل پر سزائے موت نہ ہوتی اگر مقتول کا تعلق چوہدری حشمت علی خان کے خاندان سے نا ہوتا۔چوہدری حشمت علی خان شہر کے ایم این اے تھے اور جیدے اور اس جیسے کئی دیگر بدمعاشوں کے سرپرست بھی تھے۔مگر چونکہ اس دفعہ ان کے پالتو کتے نے خود ان کے ہی اہل خانہ کو کاٹ لیا تھا اس لئے رحم و شفقت کی گنجائش نہ رہی تھی۔چنانچہ چوہدری صاحب نے دفعہ تین سو دو کے تحت جیدے کو جیل بھجوا دیا اور اس کی واپسی کے تمام رستے مسدود کروا دئے۔
ان پندرہ سالوں میں جیدے کی ذات میں غیرمعمولی تبدیلیاں واقع ھوئی تھیں۔جب وہ جیل آیا تھا تو گھنی مونچھوں والا ایک غصیل، ہٹا کٹا اور مغرور طبعیت کا مالک نوجوان تھا۔مگر جیل کی اداس زندگی، ڈھلتی عمر اور ناامیدی کے احساس نے اس کے اندر کا بت توڑ کر اسے ایک انسان بنا دیا تھا۔گو کہ اس نے اس سے پہلے بھی پانچ قتل کئے تھے لیکن اتنے لمبے عرصے کے لئے جیل نہیں ہوئی تھی۔مگر یہ قتل چونکہ سابقہ پانچ قتلوں سے مختلف تھا تو اس کی سزا بھی مختلف طریقے سے مل رہی تھی۔رفتہ رفتہ اس نے خود کو جیل کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا، داڑھی بڑھا لی، قاری صاحب سے نماز و کلمے دوبارہ سے یاد کئے اور اللہ اللہ کرنے لگ گیا۔اس کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہو گی جب اسےپھانسی دی گئی۔
جیدے کا تعلق کسی ڈکیٹ یا چور گھرانے سے نہیں تھا۔وہ لیہ کے ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا اور اسکا باپ احمد علی محکمہ مال میں پٹواری تھا۔انتہائ سخت اور غصیلی طبعیت کا مالک ہونے کی وجہ سے احمد علی کے بچے اس سے ہر وقت ڈرے سہمے رہتے۔وہ اپنے دوستوں میں اس بات کا فخر سے اظہار کرتا کہ میرے بچے مجھ سے بہت ڈرتے ہیں۔
یہ تب کی بات ھے جب جیدا جاوید احمد ہوا کرتا تھا۔چوتھی جماعت کا طالب علم اور انتہائی ذہین۔ایک دن سکول مں آخری پیریڈ کے دوران دسویں جماعت کے ایک طالب علم نے اعلان کیا کہ اس کے پاس ماہنامہ "بزم پیغام” کے اس ماہ کے رسالے آ گئے ہیں، جو بچہ لینا چاہے مجھ سے رابطہ کر سکتا ھے، ایک رسالے کی قیمت پانچ روپے ھے۔
جاوید کو کہانیاں سننے کا شوق تو تھا ہی،اب پڑھنے کی بھی خواہش پیدا ہوئی مگر سوال یہ تھا کہ پانچ روپے کہاں سے لئے جائیں۔اسی خیال میں گم چھٹی کے بعد بستہ اٹھائے گھر آیا، گھر آ کر اماں سے خواہش کا اظہار کیا جس پر ماں نے سختی سے ڈانٹ دیا
"ہن توں کتاباں پڑھ سیں یا کہانیاں ؟ نامراد نا ہووے تاں”
(اب تم اپنی درسی کتابیں پڑہو گے یا کہانیاں؟ نامراد کہیں کے)۔
جاوید خاموش ہو گیا۔ابا سے اس کی ویسے ہی جان جاتی تھی۔ماں کا یہ رویہ دیکھ کر اسکا گلاب جیسا چہرہ مرجھا کر زرد ہو گیا۔
گرمیوں کےدن تھے، تمام گھر والے چھت پر چارپائیاں ڈال کر سوئے ہوئے تھے۔جاوید بزم پیغام رسالہ حاصل کرنے کی ترکیبیں لڑاتا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا
"کیوں نا ابا کی جیب سے نکال لوں۔کونسا ابا کو پتہ چلے گا”
یہ خیال آتے ہی وہ پانی پینے کے بہانے اٹھا، نیچے آیا اور کمرے میں جا کر کھونٹی سے لٹکتی ابا کی قمیص سے پانچ روپے کا نوٹ نکال لیا۔نوٹ کو شلوار کے نیفے میں اڑسے وہ دوبارہ چھت پر جا کر لیٹ گیا مگر اسے ساری رات نیند نا آئی۔ایک تو یہ خوف کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے اور دوسرا یہ خوشی کہ کل جاتے ہی کہانیوں کی کتاب خریدوں گا۔
یہ جاوید احمد کی پہلی چوری تھی جس کی وجہ باپ کا خوف اور ماں کی قدامت پسندی تھی۔بس پھر کیا تھا، جب جب جیدے کو ضرورت ھوتی، وہ رات کو پانی پینے نیچے اترتا، ابا کی لٹکتی جیب پر ہاتھ صاف کرتا اور نوٹ کو نیفے میں اڑس کر چھت پر جا سوتا۔
پانچ سے دس، دس سے پندرہ بیس کرتے کرتے اس کی عادت پچاس روپے تک کی چوری کو جا پہنچی۔
سکول سے واپسی پر ٹافیاں چاکلیٹس، مختلف قسم کے رنگ، کہانیوں کی کتابیں اور کھلونے۔جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا شوق بڑھتے گئے اور چوری کی شرح بھی بڑھتی گئی۔
ابا جی پٹواری تھے، پیسے کا حساب کتاب ویسے ہی نہیں تھا، اسلئے جاوید کی ہر واردات کامیاب ٹہرتی اور اگلی واردات کے لئے مضبوط اور دلیر بنا جاتی۔
اب وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور گھر سے چیزیں چرانے کے ساتھ ساتھ دوستوں کی چیزوں پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگا تھا۔کسی کا قیمتی قلم، جیومیٹری، ہیلپنگ بک غرضیکہ اسے جو کچھ اچھا لگتا وہ مانگنے کی بجائے چرا لینے کو ترجیح دیتا۔
چوتھی جماعت سے بارہویں تک اسکی ایک بھی چوری نہ پکڑی گئی۔ اس کے والدین بھی توجہ نہ دیتے کہ جاوید کے کمرے میں موجود چیزیں کہاں سے آتی ہیں۔اب اس کی دوستی بھی چور اچکے نشئی لوگوں سے ہو گئی تھی
ملتان شاہ رکن الدین عالم کے میلے میں جانے کے لئے اسے پانچ ہزار روپے کی ضرورت تھی اور اس دفعہ اس نے ابا کی جیب کی بجائےاماں کی گولڈ چین چرانے کا ارادہ بنایا۔چین چرا کر دوستوں کے ساتھ میلہ دیکھنے کے بعد جب وہ گھر آیا تو ابا کی جوتی اسکا انتظار کر رہی تھی۔ابا نے مارا اور بے تحاشہ مارا۔مارنے کے بعد غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو گھر سے نکال دیا۔
گھر سے نکلا دوستوں کے پاس پہنچا اور دوبارہ کبھی گھر نہ گیا۔کتابیں پڑھائی گھر سب بھلا کر چوروں کی صحبت میں بیٹھا جاوید احمد پہلے "جیدا” اور پھر جیدا چور بن گیا۔
جب وہ جیل کے کمرے سے پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہا تھا تو اس کا ماضی ایک فلم کی طرح اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔
تختہ دار پر کھڑے جاوید احمد عرف جیدا چور سے جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے جیل وارڈن سے کہا کہ میں اپنے والد کے نام ایک خط لکھنا چاہتا ھوں۔وارڈن نے قلم اور کاغذ کا فوری بندوبست کیا اور جیدے نے لکھنا شروع کیا۔
محترم احمد علی پٹواری صاحب
آپ کو والد کہہ کر اس لئے نہیں مخاطب کر رہا کیونکہ آپ نے بطور والد اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ساری آسائشیں مجھے مہیا کیں مگر میرے ذہنی نشوونما اور صحیح و غلط کی طرف فطری میلانات کا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کی۔خود کو آپ کا بیٹا اس لئے کہلوانا پسند نہیں کرتا کہ میری کہانی پڑھنے کی خواہش نے آپ کے خوف کی وجہ سے مجھے خود ایک کہانی بنا دیا ھے۔یہ خط لکھنے کا مقصد آپ کے وہ پانچ روپے لوٹانے ہیں جو میں نے پہلی مرتبہ آپ کی جیب سے نکالے تھے۔بابا میں نے آپ کے پانچ روپے چوری کئے تھے، آپ کے پانچ روپے آپ کو لوٹا رہا ھوں۔مگر آپ نے جو اپنی ذات کا خوف میرے ذہن پر بچپن میں طاری کیا تھا، وہ خوف اب نہیں رہا۔وہ خوف تو چلا گیا مگر آپ سے آپ کا بیٹا بھی چھین کے لے گیا۔ کاش کہ آپ میری کہانیاں پڑھنے کی خواہش پوری کرتے اور سراہتے تو شاید آج میں کسی لائبریری میں بیٹھا غالب و فیض کی مانند آگہی کی کرنیں بکھیر رہا ھوتا اور آپ کے لئے باعث فخر ہوتا۔مگر افسوس کہ آج میں چند جملے اور پانچ روپوں کے علاوہ آپ کو کچھ نہیں دے پایا۔جو خوف آپ نے مجھ پر طاری کیا تھا اس کے عوض آپ کو یہی مل سکتا ہے کہ آپ کا بیٹا جاوید احمد، ڈاکٹر جاوید نہیں بلکہ جیدا چور بن کے مر رہا ھے۔
خدا حافظ
فقط جیدا چور
خط کے کاغذ میں پانچ روپے کا سکہ لپیٹ کر جیدے نے وارڈن کی ہتھیلی پر رکھا اور تختہ دار کی جانب بڑھ گیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn