Qalamkar Website Header Image

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

umme rubabدنیا میں سب مسائل صرف لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل سے حل نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات کی میز پر ،باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ یہی فارمولا ہماری اپنی زندگیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ٓآج کل موبائل کے ایک اشتہار کی بڑی دھوم ہے۔ ایک عظیم صحافی نے تو اپنی عمر کا لحاظ کئے بغیر اس میں سے عریانیت دریافت کر لی، جو اس اشتہار سے عریانیت نہ نکال سکے انہوں نے اس میں سے بغاوت کا پہلو نکال لیا۔بغاوت یہ ہے کہ باپ نہیں چاہتا کہ بیٹی کرکٹ کھیلے،خاتون خانہ جو باپ اور بیٹی کے درمیان رابطے کا کام انجام دے رہی ہے،اپنے اپنے طور پر دونوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کو کہہ رہی ہے،باپ نے تو نہایت سختی سے جواب دے دیا کہ لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں، یہ تو ہوئی اس اشتہار کی ایک اہم لائن، اب دوسری بات سنیے،جب وہ بیٹی سے کہتی ہے کہ ابو سے بات کرو تو بیٹی کا جواب ہوتا ہے ابو سے بات نہیں کی جا سکتی امی صرف سنی جا سکتی ہے،یہ ہے ایک اور پہلو۔
ایک لڑکی بھری دوپہر میں اسکول ،کالج سے واپسی پر سخت گرمی میں پوری چادر میں ملبوس بس اسٹاپ پر کھڑی ہے،پسینے سے شرابور ہے،بس کے انتظار میں دس یا پندرہ منٹ گزر جاتے ہیں، اس دوران کتنی گاڑیاں اس کے پاس آکر رکتی ہیں،کتنے لوگ اس پر فقرے بازی کرتے ہیں،اور فقرے بھی وہ جو تمام زندگی وہ کسی کو بھی نہیں بتا سکتی،بس کے سفر کے دوران جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی ہے وہ الگ،بس سے اترنے کے بعد اگر کچھ فاصلہ بس اسٹاپ سے گھر تک اگر پیدل بھی طے کرنا پڑ گیا توبہت سے خدائی خدمت گاران گھر تک چھوڑنے بھی آتے ہیں اور راستے بھر جو بکواس کرتے ہیں اس کا تذکرہ فضول ہے۔کیا لڑکیاں گھر آکر یہ سب باتیں اپنے باپ یا بھائی سے کہہ سکتی ہیں؟
ہوتا یوں ہے کہ اگر کوئی لڑکی ہمت کر کے باپ یا بھائی کو یہ سب باتیں بتا بھی دے تو شامت بھی اسی لڑکی کی ہی آتی ہے کہ ضرور تم نے ہی ایسا کچھ کیا ہو گا۔اس معاشرے میں کتنے گھرانے ہیں جہاں بیٹیوں،بہنوں کو بات کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ سیدھا سیدھا حل تو یہی نکالا جاتا ہے کہ کل سے تم اسکول،کالج نہیں جاؤ گی،گھر میں بیٹھو گی،چاہے وہ بچی اپنے اسکول،کالج کی ٹاپ اسٹوڈنٹ ہو مگر چونکہ باپ اور بھائی اسے تحفظ نہیں دے سکتے لہٰذا اس کا مستقبل قربان کر دیا جانا ہی بہترین حل ہے۔ایسے بھی کئی گھرانے ہیں جہاں لڑکیاں مکمل پردے میں رہ کر بھی ڈاکٹر اور انجینئر بن رہی ہیں اور اچھے عہدوں پر بھی کام بھی کر رہی ہیں۔کم از کم ان پر اعلیٰ تعلیم کا دروازہ تو بند نہیں کیا گیا۔
بچے جب کچے ذہنوں کے ہوتے ہیں تو انہیں سختی سے نہیں پیار سے قائل کیا جاتا ہے۔اس عمر میں بچوں کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی،توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔توجہ نہ ملے تو بچے باغی ہو جاتے ہیں۔لڑکے باہر نکل کر سگریٹ یا نشے کے عادی ہو جاتے ہیں،لڑکیاں اکژ گھروں سے بھاگ جاتی ہیں۔
لڑکیاں بہت کم بغاوت کرتی ہیں۔بغاوتیں اسی وقت جنم لیتی ہیں جب بات چیت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، آپس میں مکالمہ نہیں ہوتا۔اس معاشرے میں مرد صرف خود کو ایک حاکم ہی سمجھتا ہے۔باپ اور بھائیوں کے رویے گھروں میں عموماً تحکمانہ ہی ہوتے ہیں۔کیا ایک باپ اپنی بیٹی سے، ایک بھائی اپنی بہن سے دوستانہ انداز میں بات نہیں کر سکتا؟یہ بیٹیاں ،یہ بہنیں آ پ کے گھر میں مہمان ہیں۔اپنی بیٹیوں کو، اپنی بہنوں کو دوست سمجھ کر بات کیجئے،انہیں زمانے کی اونچ نیچ سے،اچھائی برائی سے آگاہ کیجئے۔ مرد گھر سے باہر جاتا ہے تو وہ گھر سے باہر کی دنیا کو عورت سے بہتر جانتا ہے۔تحکمانہ لہجے اور رویے ہمیشہ کارآمد نہیں ہوتے، اپنی بیٹیوں، بہنوں سے بات کیجئے،ان کی بات سنئے،ان پر بھروسہ کیجئے،ان کو عزت دیجئے۔ان پر زندگی کے دروازے بند نہ کیجئے،انہیں انسان سمجھئے،انہیں وہ اعتماد اور تحفظ دیجئے کہ گھر سے باہر کسی اور کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہ ہواور کوئی لڑکی کبھی یہ نہ کہے کہ ابو سے بات نہیں کی جا سکتی،صرف سنی جا سکتی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس