آئی ایم ملالہ کے موضوع پر بحث کے دوران بہت سے دوستوں نے کمنٹس کے ذریعے اور ان باکس میں ملالہ کی کتاب کے حوالہ سے اعتراضات کی بھرمار کر دی ہے۔ فرداً فرداً ہر دوست کو مطمئن کرنے کی بجائے میں نے مناسب جانا کے سب سوالوں کے جواب بالترتیب دے دوں ۔ میں نہ تو کوئی ملالہ کا وکیل ہوں اور نہ ہی میرے کوئی ذاتی مفادات وابستہ ہیں ۔ میرا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ اتنے منظم اور بھرپور انداز میں پھیلائے گئے جھوٹ کو بے نقاب کروں ۔ اس جھوٹ نے ہماری نسلوں کی بنیادی تک کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے کہ یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوٓ اِن جآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ۔ حُجرات ۶ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو۔ کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کئے پر پشیمان ہونے لگو۔
اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہ گار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے)آگے بیان کردے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے مشہور الفاظ ہیں کہ’’جب تک سچ کو موقع ملے جھوٹ دنیا میں اپنا نصف سفر طے کر چکا ہوتا ہے‘‘۔ مندرجہ بالا اصول کے آج وہی لوگ ملالہ کو امریکہ اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے پر مصر ہیں جو کل تک ڈالروں والے جہاد کے سرخیل تھے اور جنہوں نے امریکہ کو دنیا کا واحد بدمعاش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اب انہیں ڈالر فراہم کرنے والے سعودی عرب نے اعتراف حقیقت کے طور پر کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس جہاد کا فروغ ہماری بڑی غلطی تھی۔ لیکن چور مچائے شور کے مصداق بجائے یہ لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکیں انہیں سابقہ ڈالروں کے مڑور اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کو یاد کرکے کرکے دوسروں کو غدار وطن اور امریکی ایجنٹ کہنے کی بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے۔ ملالہ کی لکھی گئی کتاب پر الزامات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا فرداً فرداً جواب پیش کرنا ہوں گے تاکہ دوستوں کی تسلی ہوسکے اور وہ ماضی کی طرح مذہبی جذباتیت کی رَومیں بہہ کر ایک مرتبہ پھر ملک کو غلط سمت میں لے جانے کا باعث نہ بنیں۔جن ایشوز پر علمی بحث ہونا چاہے ان کو ہم حق وباطل کا معرکہ سمجھ کر کفر واسلام کی جنگ شروع کر دیتے ہیں ۔
جان سب کو پیاری ہوتی ہے لوگ مصلحتاً خاموش ہو جاتے ہیں اور یوں جھوٹ کو ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ابھی تک یہ قوم ضیاء الحق دورکی دروغ گوئیوں کو بھگت رہی اور آج پھر اس دور کے بزرجمہر اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور ڈاکٹر دانش جیسے لوگ سرگرم عمل ہیں اور اپنی تنگ نظری اور پست سوچ کو لے کر قوم کو گمراہ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ پہلا اعتراض: ملالہ کی کتاب I am Malala دراصل کرسٹینا لیمب نامی جرنلسٹ نے بطور شریک مصنف لکھی جس کی اصل وجۂ شہرت پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کرسٹینا لیمب نے کتاب میں واضح طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ، کرنل عابد علی عسکری، میجر طارق اور آئی ایس پی آر کی تمام ٹیم کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پاکستان میں ان کی آمد اور قیام کے دوران سہولت کار کا قردار ادا کیا۔ کیا مندرجہ بالا ملٹری شخصیات پاکستان مخالف صحافی کے مدد گار ہو سکتے ہیں ؟ جواب خود سوال میں موجود ہے۔ دوسرا اعتراض: ایک پندرہ یا سولہ برس کی بچی اتنا مربوط اور پختہ اسلوب تحریر کیسے اختیا کر سکتی ہے اس کے پیچھے یقیناً سوچی سمجھی سازش ہے۔ حیرت ہے یہ اعتراض وہ قوم اٹھا رہی ہے جس کا ماننا ہے کہ سترہ سالہ محمد بن قاسم فاتح سندھ ہے اور چھ سالہ ارفع کریم مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ہے۔ پسند اپنی اپنی ہے اور کوئی بات نہیں ۔
تیسرا اعتراض: ملالہ سلیمان رشدی کی گستاخانہ کتاب ’’ شیطانی آیات‘‘ کے بارے میں لکھتی ہے کہ ، ’’اس کے والد کے خیا ل میں وہ آزادی اظہار ہے‘‘۔ جبکہ کتاب پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملالہ کے والد بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول لکھنے سے اسلام جیسے عظیم دین کو ہرگز نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے ان کی یہ تجویز تھی کہ بجائے فتویٰ بازی سے ہم قلم کا جواب قلم سے دیں اوررشدی کے شر انگیز ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں تاکہ دنیا تصویر کے دونوں رخ دیکھ سکے۔ اگر یہ لکھنا اور سوچنا رشدی کی حمایت ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ چو تھا اعتراض : بد نام زمانہ شاتمہ رسول تسلیمہ نسرین ملالہ کو اپنی چھوٹی اورلاڈلی بہن قرار دیتی ہے۔ ان کا آپس میں ایک خفیہ گٹھ جوڑ ہے اور ملالہ رشدی کی کتاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ واقعی ایک سنگین الزام ہے اور اس کے ثبوت میں ایک تصویر بھی پیش کی جاتی ہے جس میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ تسلیمہ نسرین اور رشدی کو ملالہ کے پہلو میں کھڑا دکھایا جاتا ہے۔ اس تصویر کے علاوہ ایک خط کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو تسلیمہ نسرین نے ملالہ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بلاگ کی صورت میں لکھا تھا۔ کھلا خط یا بلاگ اس صورت میں تحریر کیا جاتا ہے جب آپ کی بات سے کوئی متفق نہ ہو۔ اس خط میں تسلیمہ نسرین ملالہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کر رہی ہیں ان کے مطابق یورپی یونین کی تقریب میں تسلیمہ کی موجودگی ملالہ کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی جب اس نے ملالہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مبارکباد دی اور اپنا تعارف کروایا تو اس پر ملالہ نے کسی گرم جوشی کا اظہار نہ کیااور اس کے چہرے پر کوئی تأثر نہ ابھرااس بات نے تسلیمہ کو حیران اور مایوس کیا۔
اب چلتے ہیں ان تصاویر کی طرف جن میں ملالہ تسلیمہ اور سلیمان رشدی کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ یہ یورپی یونین کے انسانی حقوق ایوارڈ کی تقریب ہے جس میں تسلیمہ سمیت سینکڑوں لوگ آئے تھے اور بعد ازاں ان لوگوں کو سٹیج پر بلا کر گروپ فوٹو بنوائے گئے اور جس شخص کو سلیمان رشدی قرار دیا گیا ہے یہ دراصل ضیاء شاہد کی اعلیٰ صحافت کا کرشمہ ہے جس نے اپنے اخبار خبریں کی بارہ دسمبر 2014 کی اشاعت میں شر انگیزی کرتے ہوئے اسے سلیمان رشدی کے طور پر پیش کیا جب کہ حقیقت میں یہ شخص کوئی اور نہیں جرمنی کا معروف سیاستدان اور یورپی یونین کا صدر مارٹن شلز ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ گھٹیا اور سنگین تہمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پانچواں اعتراض: اس کتاب میں قرآن مجید پر تنقید کی گئی ہے اس میں خواتین سے متعلق موجود قوانین سے ملالہ متفق نہیں ہے۔ مثلاً وہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو غلط کہتی ہے جو قرآن کا حکم ہے اسی طرح وہ زنا سے متعلق چار لوگوں کی گواہی کو بھی درست نہیں سمجھتی ہے۔
جہاں تک قرآن میں عورت کی آدھی گواہی کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف لین دین کے معاملات میں حکم ہے کیونکہ خواتین عام طور پر گھریلو ذمہ واریوں کے سبب بھولنے کا احتمال زیادہ رکھتی ہیں اس لئے ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔ جبکہ کسی بھی جرم کی صورت میں عورت کی گواہی مکمل تصور ہوگی ۔ آج فرانزک سائنس انویسٹی گیشن کے معاملات میں ڈی این اے اور دیگر واقعات کو بطور گواہ تسلیم کر سکتی ہے تو ایک گوشت پوست سے بنی دانا و فرزانہ عورت کی گواہی کیونکر آدھی ہو سکتی ہے ۔ اس پر تو علماء کرام کو بھی تحفظات ہیں صرف ملالہ پر ہی اعتراض کیوں۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ دین کے معاملہ میں ابوجہل کی گواہی کو مکمل تسلیم کیا جائے کہ مرد ہے اور بی بی خدیجہؓ کی گواہی کو آدھا تسلیم کیا جائے کہ عورت تھیں جبکہ ہمارے دین کے صادق ہونے کی پہلی گواہی بھی انہوں نے ہی دی تھی۔ اب چلتے ہیں زنا سے متعلق چار متقی اور پرہیز گارگواہوں کا ہونا۔ ضیاء دور میں جب کوئی عورت حدود آرڈنینس کے تحت زنا کا مقدمہ درج کروانے جاتی تو گواہ پیش نہ کئے جانے کے سبب اسی عورت کو ہی زنا کا مرتکب قرار دیکر سزا سنائی جاتی تھی یعنی منور حسن کے بقول اگر کوئی لڑکی زیادتی کا شکار ہو جائے تو وہ چار گواہ پیش کرے یا پھر خاموشی سے اس سانحے کو نظر انداز کرکے چپکے سے اپنے گھر بیٹھ جائے۔ کیا یہ عدل کا تقاضہ ہے؟ ہرگز نہیں یہ ملائیت کی بد ترین شکل ہے جس نے پاکستانی سماج کو بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصمت دری یا زنا ایسا قبیح جرم کبھی بھی سرعام نہیں کیا جاتا ایسے میں مظلوم عورت چارایسے متقی اور پرہیز دار گواہ کہاں سے پیش کرے جو ایسی گواہی دے سکیں کہ ہم نے سرمے دانی میں سلائی کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ کارستانی ہے ضیاء کے حدود آرڈنینس کی جس میں ملزم تو دندناتے پھرتے رہیں اور زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کیلئے انصاف کا حصول نا ممکن بن جائے۔
جبکہ قرآن پاک میں سورۃ نور کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ تو ہرگز ریپ کا شکار لڑکی کیلئے نہیں ہے بلکہ وہ ایسی پاکباز عورت کے دفاع میں نازل کردہ آیت ہے جس پر کوئی بد چلنی کا الزام لگا دے تو ایسے میں الزام لگانے والے کو چار پرہیز گار گواہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ آیت دراصل خواتین کو جھوٹے الزام سے بچانے اور ان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے نازل کردہ آیات ہیں۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں پر بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارواور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرواور یہی بد کردار ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اپنی ذات کی تسکین اور نفس کی غلامی میں قرآنی پیغام کو کس طرح گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر اس پر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ گردن زدنی قرار پاتا ہے ۔ واہ ملائیت ! واہ ضیاء الحقیاں ! واہ انسانیت دشمنیاں !
چھٹا اعتراض:اس کتاب کا اسلام کا سیکولرازم اور لبرل ازم سے موازنہ کرتے ہوئے اسلام کو Militant قرار دیتی ہے (نعوذ باللہ) جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کتاب میں جہاں جہاں اسلام کا ذکر آیا ہے وہاں صرف اسلام ہی لکھا گیا ہے ۔ صرف ایک جگہ پر ملٹینٹ اسلام کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ اصطلاح گذشتہ کئی سالوں سے گردش میں ہے جسے دنیا بھر میں مسلمان عسکری تنظیمی اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتی رہتی ہیں ملالہ نے تو یہ لفظ ایجاد نہیں کیا ہے ۔ ملالہ کی کتاب میں اس لفظ سے یہ مراد ہے کہ اسلام جیسے جامع اور سیکولر فطرت والے دین کی ایسی تنگ نظر اور لہو میں لتھڑی ہوئی تعبیر غلط ہے کہ اسے ملٹینٹ یعنی عسکری دین کا نام دیا جائے۔ عسکری دین کی اصطلاح تو بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، فضل اللہ ، داعش اور بوکوحرام جیسے دہشت گرد لوگوں کو سوٹ کرتی ہے جو دین کا مقصد سوائے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے اور کچھ بھی نہیں سمجھتے ہیں ۔ رسول عربی کا دین تو دین رحمت ہے ہم اسے دہشت گردی کا دین ہرگز نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ساتواں اعتراض: پوری کتاب میں اللہ کیلئے لفظ God استعمال کیا گیا ہے اور محمد ؐ کے ساتھ Peace be Upon Him نہیں لکھا گیا ہے۔ یہ صریحاً جھوٹ ہے کتاب میں ایسے کئی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں جہاں پر اللہ کا اسم مبار ک استعمال ہوا ہے جبکہ God کا لفظ بھی پوری دنیا میں اللہ کے متبادل کے طور پر جانا اور لکھا جاتا ہے ۔ تورات اور زبور میں اللہ کو گاڈ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے تو کیا گاڈ پکارنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں؟ یہ الزام انتہائی مضحکہ خیز اور بھونڈا ہے۔
اسی طرح لفظ محمد کے ساتھ ﷺلگانے کا الزام بھی توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے کتاب کے انڈیکس میں واضح طور پر درود و سلام موجود ہے اور عام طور پر یہ رائج ہے کہ فرہنگ یا گلاسری میں جو اصول ایک مرتبہ طے ہو جائے وہ پوری کتاب میں لاگو ہوتا ہے یعنی اگر فرہنگ میں لفظ محم کے ساتھ ﷺ لکھا گیا ہے تو پوری کتاب میں جہاں جہاں لفظ محمد آئے گا وہاں پر درود پاک لکھا تصور ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود ملالہ نے اسے پبلشر کی کوتاہی کہا ہے اور آئندہ ایڈیشن میں اس غلطی کے ازالہ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات ’ ’تجدید فکریاتِ اسلام‘‘ (The reconstruction of religious Thoughts in Islam) میں لفظ محمدؐ کے ساتھ درود وسلام کا استعمال نہیں کیا تھا مگر مولوی خادم اور کاشف مرزا کو شاید اس پر اعتراض کرنے کی جرأت نہ ہو کہ پانی ہمیشہ نشیب میں ہی اترتا ہے۔ آٹھواں اعتراض: کتاب کے مطابق پاکستان رات کے اندھیرے میں بنا یہ الفاظ پڑھ کر پہلا تأثر یہی ملتا ہے گویا تاریکی میں کوئی گناہ یا جرم سرزد ہوا تھا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ من پسند کی ہر بات بھاتی ہے اور جو انسان پسند نہ ہو اس کی ہر بات پر اعتراض ۔ اگر ہم اچھا گمان لیں تو یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان جس رات کو وجود میں آیا وہ لیلۃ القدر کی رات تھی اور اس رات کے بننے والے ملک میں طالبان دن دیہاڑے قتل و غارت کرتے پھر رہے ہیں۔
پاکستان کی بدمعاشیہ نے اس ملک کو رئیل سٹیٹ سمجھ کر ہی تو باپ کی جاگیر بنا رکھا ہے ۔ روز ٹاک شوز میں کیا تماشا ہوتا ہے؟ کیا کسی سے ڈھکی چھپی ہیں یہ باتیں ! دسواں اعتراض: ملالہ کہتی ہے کہ پہلے میں سواتی ہوں پھر پشتون اور پھر پاکستانی۔ اپنے مسلمان ہونے کا ذکر وہ آخر میں بھی نہیں کرتی۔ او بھائی ! ملالہ نے کون سی ایسی خلاف فطرت بات کہہ دی ہے اقوام بھی اوطان اور لسان ہی کی نسبت سے وجود میں آتی ہیں اور سینکڑوں برس گذر جانے پر اسی ہی علاقائی اور لسانی نسبت سے متعارف چلی آرہی ہیں۔بلکہ محدثین اور فقہا ء اپنے وطن اور شہروں کی نسبت ہی سے پہچان رکھتے تھے۔ جیسے ولی اللہ (دہلوی) عبد الرزاق (کانپوری) محمد بن اسماعیل ( بخاری) مسلم بن حجاج (نیشا پوری) ابو عیسیٰ (ترمذی) ابن ماجہ(قزوینی) اِمام (نسائی) دارقطنی دارمی قشیری مرغینانی جرجانی رازی عسقلانی قسطلانی وغیرہ۔ کیا یہ اصحاب اپنے نام کے ساتھ مسلم لگوانے کے روادار نہیں تھے؟ اسلام سے نہ تو نسب چلتا ہے اور نہ ہی صدرِاوّل میں کسی نے اپنی پہچان نسلی قومیت سے ہٹ کر کرائی۔اگر ایسا ہوتا تو صحابۂ کرام اور نبی اکرم صلے اﷲ علیہ وسلم کسی بھی مرحلے پر اپنے نسبی تعلق کو صرف اور صرف اسلام سے وابستہ کرتے۔ ابو بکرؓ ابن اسلام ہوتے،ابن قحافہ سے شہرت نہ پاتے۔ عمرؓ بن اسلام، عثمانؓ بن اسلام اور علیؓ بن اسلام سے بہتر نسبت نہ ہو سکتی تھی مگر اُنہوں اُسے چھوڑ کر ابن خطاب، ابن عفان اور ابن ابی طالب کی نسبت کو اختیار کرکے نسبتوں کا فطری راستہ اپنایا۔اسی طرح ان میں سے کسی نے بھی اپنے کو ذات کا مسلم نہیں بتلایاکیونکہ اسلام کی آفاقیت کسی جغرافیائی نسبت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جبکہ قومیت کیلئے دائرے اور احاطے کا ہو نا ضروری ہے۔اگر ان پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا تو ملالہ ہی حدف تنقید کیوں.
اس موضوع پرتفصیلی بحث کیلئے ملاحظہ ہو انسانیت پہچان کی دہلیز پر گیارہواں اعتراض: اس کتاب میں احمدیوں کی حمایت کی گئی ہے کتاب میں لکھا ہے کہ احمدی خود کو مسلم کہتے ہیں مگر حکومت نے انہیں غیر مسلم قرار دے رکھا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پوری کتاب میں کہیں بھی احمدیوں کا ذکر تک نہیں ہے صرف ایک جگہ پاکستانی اقلیتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں دو ملین کے قریب عیسائی اور دو ملین سے زیادہ احمدی رہتے ہیں وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ حکومت انہیں ایسا نہیں مانتی ہے۔ اس میں غلط کیا ہے ؟ کیا احمدی اپنے آپ کو مسلم نہیں کہتے؟ کیا حکومت نے انہیں غیر مسلم نہیں قرار دے رکھا ہے؟ اعتراض برائے اعتراض۔یا للعجب بارہواں اعتراض: ملالہ کے مطابق اس کا باپ اپنے نجی سکول اور گھر کیلئے بجلی چوری کرتا تھا جس کے باعث وہ ایک مرتبہ پکڑا گیااور اسکو جرمانہ بھی ہواجبکہ کتاب میں صورتحال یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ واپڈا کے میٹر ریڈر نے ملالہ کے والد ضیاء الدین صاحب سے یہ بہانہ لگا کر رشوت طلب کی کہ میٹر درست نہیں ہے ۔ ضیاء الدین صاحب نے عمدہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بے ایمان شخص کو رشوت دینے سے انکار کر دیا ، جس کے نتیجہ میں میٹر ریڈر نے انہیں لمبا چوڑا بل بنوا کر بھجوا دیا۔ یہ صورت حال پاکستان میں کس کو فیس نہیں کرنا پڑتی ہے؟ کوئی بتانا پسند کرے گا.
تیرہواں اعتراض: ملالہ کی پسندیدہ ترین شخصیت باراک ابامہ ہیں۔ملالہ اگر ابامہ کو اپنی پسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملاقات کرتی ہے تو اس ملاقات کا ایجنڈا صرف یہی ہوتا ہے کہ طالبان پر ڈرون اٹیک بند کیا جائے ۔وہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے باوجود سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے دشمن کو معاف کرتی ہے اور ان پر ڈرون حملے بند کروانے کی خواہش رکھتی ہے ۔
چودھواں اعتراض: ملالہ بیرون ملک جاکر پاکستان کو گالیاں دیتی ہے۔ اس سلسلہ میں جاوید چودھری کے ساتھ اس کے انٹر ویو کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اس انٹرویو کے الفاظ من و عن تحریر کئے جائیں۔ جاوید چودھری:سوشل میڈیا پر جب یہ کمپین چلی آپ کے خلاف تو ایک سوال بار بار کیا گیا ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے پاکستان بہت بدنام ہوا۔کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کی وجہ سے پاکستان بدنام ہوا؟ملالہ: حقیقت یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پہلے سے بہت زیادہ بدنام ہوچکا ہے ور میری کمپین کا یہ حصہ ہے کہ میں (دنیا) کے لوگوں کو بتاؤں کہ پاکستان کے لوگ کتنے پرامن ہیں۔میں تو یہ کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی رائے سب کے سامنے آ جائے۔ پاکستان کے لوگ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے لوگ امن چاہتے ہیں، وہ تعلیم چاہتے ہیں، وہ اپنی بچیوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو مزدوری کرتے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی پاکستان کے اصل لوگ ہیں۔ ہم نے ان غریب ، پر امن اور ایماندار لوگوں کی آواز آگے پہنچانی ہے اور یہی میری کمپین ہے ۔ہم پاکستان کو بدنام کبھی بھی نہیں کرنا چاہیں گیبلکہ ہم پاکستان کے لوگوں کی آواز کو آگے پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ پاکستان کو گالی دینا ہے تو ایسی گالی ہر محب وطن کو دینی چاہے ۔
پندرہواں اعتراض:ملالہ کے مطابق وہ بھیس بدل کر یعنی یونیفارم پہنے بغیر سکول جاتی تھی کیونکہ طالبان سے خطرہ تھاجبکہ جس وقت کا ملالہ ذکر کر ہی ہے اس وقت وہ اپنے باپ کے سکول میں زیرِ تعلیم تھی جو ان کے گھر کے نچلے پورشن میں تھا تو کیا وہ اوپر والے پورشن سے نیچے آنے کیلئے بھیس بدلتی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملالہ پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو وہ اس وقت سکول جانے کیلئے ویگن میں سوار ہو رہی تھی حملہ آوروں نے اس کا نام کنفرم کرنے کے بعد اس پر فائر کھولا تھا۔ کیا وہ اپنے گھر کے نچلے پورشن میں آنے کیلئے ویگن میں سوار ہو رہی تھی؟سولہواں اعتراض: عام طور پر معترضین امریکی اہلکار رچرڈ ہالبروک کے ساتھ ملال اور اس کے والد کی لی گئی تصویر کو مرکزی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیںیہ تصویر UNISEF کے پبلک اجلاس کے موقع پر لی گئی ہے جس میں رچرڈ ہالبروک انسانی حقوق اور این جی اوز کے نمائندگان سے ملے اور یہ تقریب دفتر خارجہ کی اجازت سے منعقد کی گئی ۔ اس موقع پر ملالہ اور اس کے والد نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے رچرڈ ہالبروک سے مدد کی درخواست کی تھی. سترہواں اعتراض: ملالہ فنڈ کیلئے 68ارب ڈالرز مختص کئے گئے جو پاکستان کے کل قرضے کے برابر ہیں اسے کہتے ہیں پدو کو پدمن داس بنانا۔ کون پوچھتا ہے کہنے میں ہرج ہی کیا ہے ۔ کہنے میں نہ تو کسی دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ہوتے ہیں نہ کسی قسم کا حلف دینا ہوتا ہے اس لئے 68لاکھ نہیں کروڑ نہیں ارب نہیں بلکہ ارب ڈالر کہہ دینے سے کسی کی صحت پر کیا فرق پڑ سکتا ہے ۔ سو کہے چلے جائیں حضور جوں جوں اس معاملے کی گہرائی میں گیا ایسے ایسے فضول اعتراضات سامنے آئے کہ پناہ بخدا دوستوں کی سہولت کیلئے صرف ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جو زیادہ تر وائرل ہیں ۔ بعض سیانے تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ ملالہ کو گولی لگنا بھی ایک ڈرامہ ہے ۔ اگر یہ ڈرامہ ہے تو بہت ہی منظم ڈرامہ تھا جس میں پاک آرمی کی ہائی کمان بھی ملوث تھی کیونکہ اسوقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ذاتی دلچسپی سے ملالہ کو علاج کیلئے برطانیہ منتقل کیا اور ملالہ کا ابتدائی آپریشن بھی فوجی ڈاکٹروں نے کیا تھا۔
قصہ مختصر ملالہ ضیائی امت کے حلق میں ایک ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے نگلتے ہیں تو موت ہے اگلتے ہیں تو سوائے ذلت و بدنامی کے ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn