چند ماہ قبل ہونے والے خود کش دھماکے کی وجہ اُس سال کے عشرہ محرم میں انتہائی سخت حفاظتی اقدامات تھے جنہوں نے محرم کے ماحول کو گذشتہ سالوں کی نسبت یکسر بدل کر رکھ دیا تھا، جا بجا سخت چیکنگ، ناکہ بندی، راستوں کی بندش، چار پانچ لوگوں کے ساتھ گھومنے پر غیراعلانیہ پابندی، جگہ جگہ بچھی ہوئیں کھاردار تاریں اس سب کے بعد دن رات مسلسل حفاظت پر مامور چند اہلکاروں کے لہجوں میں فطری اکھڑ پن آ جانا۔ یہ سب مناظر دیکھ کر عزادار خود کو محصور محسوس کر رہے تھے جبکہ عام شہریوں کا جینا الگ اجیرن بن گیا تھا، عام شہری نہ صرف اپنے روز مرہ کے امور انجام دینے سے عاجز تھے بلکہ ان میں سے ایسے محب جو نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں میں شریک ہوتے تھے وہ بھی اس سال شرکت نہ کر پائے۔
چند سازشی افراد نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر نقش کرنے کی کوششیں شروع کردیں کہ اس ساری صورتِ حال کے ذمہ دار شیعہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات کے پیشِ نظر جلوس محدود کردیئے جائیں تو یہ مسائل بھی نہ ہوں۔ بہرحال عشرہ جوں توں کرکے بخیریت اختتام پذیر ہوگیا۔
اس کے اگلے سال کچھ نوجوانوں نے اپنے فہم و فراصت کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس سال اس گھٹن زدہ ماحول سے کسی صورت نجات حاصل کرنی ہے اور اپنے تئیں کوشش کرنی ہے کہ دھماکے سے پہلے والے محرم کا ماحول میسر ہو جس میں سب محبانِ حسینؑ بغیر کسی رنگ، نسل، فرقے اور مذہب کے فرق کے جلوسوں میں اپنی روایت کے مطابق شرکت کرتے تھے۔
اس کام کے لئے سہارا بھی سیدالشداء کی ذاتِ مبارک کا ہی لیا گیا اور "میں حسینؑ سے کیوں پیار کرتا ہوں؟” کا سوال لئے مختلف برادریوں، طبقات، مسالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے محبانِ حسینؑ سے ملاقاتیں کی گئیں اور ان کے انٹرویوز رکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر نشر کیئے گئے۔ یہ سوال ایک ایسا سوال تھا جس کا ہر شخص کے پاس الگ الگ مگر خوبصورت جواب تھا۔
ایک ہندو محب نے جواب دیا کہ "میں امام حسینؑ سے اسلئے محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ محسنِ انسانیت تھے”۔
ایک سکھ محب نے بابا گرو نانک کی امام حسینؑ سے محبت و عقیدت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم بھی امام حسینؑ کے عزادار ہیں”۔
عیسائی محب نے کہا کہ ہم ہر سال محرم کے جلوس میں شرکت کرکے امام حسینؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، مگر پچھلے سال کے حالات کی وجہ سے یہ سعادت حاصل نہ کرسکے”۔
دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والے مولانا صاحب نے اس قدر خوبصورت انداز سے بیان کیا کہ دو سال گذر جانے کے باجود ان کا کلپ آج بھی سوشل میڈیا پر دیکھا اور سراہا جاتا ہے۔
سیاست دان، ڈاکٹر، پروفیسر، شاعر، ادیب، سماجی کارکن غرضکہ سب ہی محبان اپنے اپنے انداز میں بارگاہِ امام حسینؑ میں عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔ یہ مناظر اس بات کا عملی مشاہدہ تھے کہ امام حسین علیہ السلام کسی ایک مسلک یا مذہب کے نہیں بلکہ ہر باغیرت انسان کے امام ہیں، بس ہر کوئی انہیں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق پر پکارتا ہے، جیسے کوئی مولا حسینؑ کہتا ہے، کوئی امام حسینؑ کہتا ہے، کوئی سیدنا حسینؑ کہتا ہے، کوئی امام عالی مقام امام حسینؑ کہہ کر پکارتا ہے، کوئی علیہ السلام تو کوئی رضی اللہ کہتا ہے۔
بہرحال، جیسے جیسے یہ وڈیوز اور تصاویری پیغام عام ہوتے گئے ویسے ویسے اس گھٹن زدہ ماحول میں کمی واقع ہوتی گئی، جہاں جہاں تک یہ پیغام گیا وہاں وہاں سب کے سینوں میں پلنے والی محبتِ حسینؑ نے جوش مارا اور یہ احساس عروج پر پہنچا کہ یہ جلوس فقط شیعوں کے جلوس نہیں بلکہ ہر اس محب کے جلوس ہیں جس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کا غم موجود ہے۔
پھر کیا تھا! ایک طرف سارے اہلِ وفا مل کر اپنے مظلوم امام کے غم میں روتے رہے دوسری طرف سازشی عناصر کسی کونے میں چھپ کر اپنی ناکامی کے غم میں روتے رہے اور ہمیشہ کی طرح حسینیت سرخرو ہوئی جبکہ یزیدیت ذلیل و خوار ہوئی۔ یہ بات واضح ہے کہ جلوسوں میں پچھلے سال کی نسبت زیادہ شرکت میں دیگر عوامل بھی شامل تھے مگر اس مختصر کوشش نے بھی اپنا کردار ضرور ادا کیا۔
بیشک امام حسین علیہ السلام انسانوں میں سے ہر غیرت مند کے امام ہیں جن کی ذات پر کسی ایک مسلک کی اجارہ داری نہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn