وصال پور گاؤں پسماندہ اور شہری آبادی سے کافی دور واقع تھا جہاں کی اکثریت مذہبی رجحان رکھتی تھی اور صوم و صلات کی پابند تھی، گاؤں میں ایک پرائمری اسکول تھا جہاں استاد کی عدم موجودگی کے باعث تعلیم کا سلسلہ کافی عرصے سے بند تھا مگر اسکول کے ساتھ ہی قائم ایک مدرسے میں بچوں کی کثیر تعداد دینی تعلیم حاصل کرتی تھی، چند دکانیں جہاں سے روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء اصل داموں سے کچھ زیادہ رقم میں میسر رہتی تھیں جس کی وجہ دکان دار یہ بتاتے تھے کہ شہر دور ہونے کی وجہ سے سامان لانے میں کرایہ زیادہ لگتا ہے جب کہ سامان شہر والے نرخوں پر ہی ملتا ہے۔ گاؤں میں ایک ڈاکٹر صاحب نے کلنک کھول رکھا تھا، ڈاکٹر صاحب روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر شہر سے سفر کر کے یہاں آتے تھے اور گاؤں کے لوگوں کو نہ صرف طبی سہولیات فراہم کرتے بلکہ مختلف معاملات میں ان کی رہنمائی بھی کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے بزرگوں کی نظر میں ڈاکٹر صاحب کی بہت عزت تھی اور وہ انہیں اپنے گھر کا فرد تصور کرتے تھے۔
مدرسے کے مولوی صاحب بھی کسی دوسرے گاؤں سے تعلق رکھتے تھے مگر کیونکہ ان کو مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی امامت کے فرائض سر انجام دینے ہوتے تھے اس لئے گاؤں والوں نے ان کی رہائش کا بندوبست مدرسے میں ہی کر رکھا تھا۔ زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی، کاشت کاری، کھیل کود، مچ کچہریاں، مذہبی فرائض وغیرہ سب چیزیں توازن کے ساتھ جاری تھیں کہ مولانا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور انہیں مستقل اور بہتر علاج کے لئے شہر کے ایک ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں وہ کچھ دن زیرِ علاج رہنے کے بعد چل بسے۔ گاؤں والے مولانا کے خلا کو پورا کرنے کے لئے اپنے طور پر نماز کی امامت کرتے رہے مگر مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم ضرور متاثر ہو رہی تھے، ایسے بچے جو اسکول بھی نہ پڑھ پائے ان کے لئے مدرسہ بند ہونا گاؤں والوں کے لئے تشویش ناک تھا بہرحال انہوں نے ایک اور مولانا کا بندوبست کیا اور مرحوم مولوی کی طرح انہیں بھی رہائش کی سہولت فراہم کی اور نان و نفقع کی ذمہ داری حسبِ سابق گاؤں کے بزرگوں نے اٹھائی۔اس طرح مدرسے میں درس و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا، نئے آنے والے مولانا کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی اس لئے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ ان کی اچھی بنتی تھی اور کچھ نوجوانوں نے مولانا صاحب کے پاس شام کے وقت درس لینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔
ہر روز نمازِ مغرب کے بعد مولانا ان لڑکوں کو درس دیتے، ان میں سے دو لڑکے مولانا کی شخصیت سے زیادہ ہی متاثر تھے اس لئے درس کے بعد بھی ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور مختلف موضوعات پر مولانا کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں ڈاکٹر صاحب کا ذکر چل نکلا اور مولانا نے دریافت کیا کہ یہ موصوف کبھی مسجد میں نظر نہیں آئے حالانکہ نماز کے وقت اپنے کلینک پر موجود رہتے ہیں تو ان لڑکوں میں سے ایک نے جواب دیا کہ مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے کلینک پر ہی نماز ادا کرتے ہیں لیکن مولانا میں نے دیکھا ہے وہ ہمارے طریقے سے مختلف انداز میں نماز پڑھتے ہیں، مولانا نے مزید دریافت کرتے ہوئے چند باتوں کی تصدیق کی اور غصے کے عالم میں بولے "یہ تو کافر ہے”۔ لڑکے یہ سن کر حیران ہوگئے اور مولانا سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ مولانا نے جواب دیا کہ ان کے عقیدے فلاں فلاں طرح کے ہیں، یہ فلاں فلاں طریقے سے بھی عبادت کرتے ہیں جو کہ شرک ہے اور یہ چند ایسی باتیں بھی کہتے ہیں جس سے ہمارے مسلک کی توہین صادر آتی ہے۔ لڑکوں کے لئے یہ سب نئی باتیں تھیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں لہٰذا انہوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ مولانا سے ایک ایک بات کا جواب جاننا چاہا اور آنے والے کئی دن اسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہی اور بالآخر یہ دونوں لڑکے اس بات کے قائل ہو گئے کہ ڈاکٹر صاحب کافر اور واجب القتل ہیں اور انہیں قتل کرنے والے کو خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی اور جنت میں اعلیٰ مقام حاصل ہوگا۔
ان دونوں لڑکوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ کیوں نہ یہ دونوں یہ ثواب حاصل کرنے میں سبقت حاصل کریں اور بالآخر یہ طے پایا کہ وہ فلاں دن موقع دیکھ کر اس کافر ڈاکٹر کو قتل کرکے جنت کے حق دار بن جائیں گے اور ہوا بھی یوں کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو کلینک میں اکیلا پا کر قتل کر دیا۔
گاؤں میں کہرام مچ گیا کہ ہمارے مسیحا قتل ہو گئے، وہ پریشان تھے کہ آخر سب کے کام آنے والے، سب کا علاج کرنے والے اور اپنے مفید مشوروں سے گاؤں کی بھلائی کرنے والے شخص سے آخرکار کس کی دشمنی ہو سکتی ہے۔ بہرحال سوال سوال ہی رہے اور پولیس بھی قاتلوں کی شناخت میں ناکام رہی۔
گاؤں کے بزرگوں نے مولانا کے نعم البدل کا بندوبست تو آسانی سے کر لیا تھا مگر کسی ڈاکٹر کو ان کے گاؤں میں کلینک چلانے کے لئے ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں تھا، اس لئے گاؤں میں اب طبی سہولیات ناپید ہو گئیں۔
ایک دن ایک خاتون کی طبیعت اچانک شدید خراب ہوگئی اور انہیں شہر کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں پر کچھ دیر زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گئیں۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر ان خاتون کو بروقت طبی امداد مہیا کی جاتی تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی مگر چونکہ آپ نے گاؤں سے یہاں پہنچتے پہنچتے دیر کردی اس لئے ان کا بچنا مشکل ہوگیا۔
یہ سننا تھا کہ ایک کونے سے ایک چیخ بلند ہوئی سب اس طرف متوجع ہوئے تو دیکھا کہ خاتون کا بیٹا اپنا سر اور منہ پیٹ رہا ہے اور رو رو کر کہہ رہا ہے کہ "یہ میں نے کیا کر دیا، یہ میں نے کیا کر دیا”۔
ایک بزرگ کو معاملہ سمجھ آ گیا، اس نے نوجوان کو تسلی دے کر خاموش کروایا، یہ لوگ میت لے کر واپس گاؤں آ گئے جہاں تجہیز و تکفین کے بعد تدفین کر دی گئی۔
بزرگ نے لڑکے کو بٹھایا اور کہا کہ "میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قتل میں تم شامل ہو، مگر میں نے تمہاری ماں کی تجہیز و تکیفن تک اس معاملے کو مؤخر کر رکھا تھا، اب بتاؤ تم نے کیوں ایک مسیحا کو قتل کیا؟”
لڑکے نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ساری روداد بتائی
بزرگ نے کہا "ہم سب جانتے تھے کہ ڈاکٹر کا مسلک ہم سے الگ تھا مگر ہم اس کی جی جان سے عزت کرتے تھے اور صرف ہم ہی نہیں بلکہ مرحوم مولانا صاحب بھی ڈاکٹر صاحب کو اپنا بھائی کہتے تھے اور ان کے استقبال میں اپنی نشست سے اٹھ جایا کرتے تھے، مولانا صاحب فرماتے تھے کہ اسلام ہمیں رنگ، نسل، زبان اور فرقوں کی بنیاد پر لڑنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ آپس میں وحدت و اتحاد کا درس دیتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا مسلک بےشک ہم سے جدا ہے مگر وہ اسی اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں جسے ہم سجدہ کرتے ہیں اور اسی رسول (ص) کا کلمہ پڑھتے ہیں جن کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں، جزوی علمی اختلافات تو ہم ایک مسلک والوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان فروعی مسائل کی وجہ سے ہم اپنے بھائیوں سے دوری اختیار کریں۔ اس کے بعد بزرگ نے لڑکے سے پوچھا کہ بھلا تم ہی بتاؤ کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوکر ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتا تھا تو کیا وہ اس کا علاج مسلک پوچھنے کے بعد کرتے تھے؟ ہر گز نہیں۔
لڑکا یہ سب باتیں سنتا جاتا اور روتا جاتا اور بالآخر بزرگ سے کہا کہ "بےشک میں صریح گمراہی میں آ گیا اور اپنی اور دیگر انسانوں کی جان پر ظلم کیا، درحقیقت اپنی والدہ کی موت کا ذمہ دار بھی میں ہی ہوں، اگر میں نے ڈاکٹر صاحب کو قتل نہ کیا ہوتا تو ماں کا علاج بروقت ہو جاتا اور ان کی زندگی بچ جاتی، میں نے جو کچھ کیا اس پر مجھے ندامت ہے، میں نے جنت کے جھوٹے دلاسے پر دو افراد کی، بلکہ دو خاندانوں کی دنیا اجاڑ دی۔”
عزیزانِ من! اس مختصر تحریر میں اس گاؤں کا نام فرضی ہے حقیقت میں ایسے کسی گاؤں سے مطابقت محض اتفاقیا ہوگی اور تحریر میں کسی خاص مسلک کا ذکر نہیں مگر یہ کہ تکفیری مائینڈ سیٹ پر بات کی گئی ہے۔
قارئین چند لمحوں کے لئے اس گاؤں کی جگہ پاکستان کا تصور کریں اور سوچیں کہ کس طرح ایک مخصوص مائینڈ سیٹ نوجوانوں کا برین واش کرکے ہمارے پیارے وطن کے اثاثوں کو ہم سے چھین لیتا ہے، اس مائینڈ سیٹ کی زد میں ملک کے بڑے بڑے سائنس دان، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، وکلاء، سماجی کارکن اور بہت سے ایسے لوگ جو اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر تھے اور دنیا کی نظروں میں پاکستان کے وقار کا باعث تھے وہ اب میں نہیں رہے، کسی بھی قوم کے زوال پذیر ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہاں پر شعور رکھنے والے لوگوں کا خاتمہ کیا جائے اور یہ کام پاکستان میں بیرونی امداد پر پلنے والے ایک ٹولے نے بخوبی انجام دیا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے، ضروت اس امر کی ہے کہ نفرت بانٹنے والی سوچ کی ہر سطح پر نفی کی جائے، ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو ملک میں بسنے والے انسانوں کو زبان، مذہب، رنگ، نسل اور فرقے کی بنیاد پر لڑانے کی بات کرتے ہیں۔
ایک بہترین مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان کی جان و مال و آبرو محفوظ ہو، پھر ہم تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے ہیں اگر ہم بھی اس بات کا پاس نہ رکھیں گے تو اور کون رکھے گا؟ جس رسول (ص) کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں اس رسول (ص) کی حکومت میں رہنے والے ہر مذہب کے لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا اور انہیں کسی طرح کی کوئی اذیت نہیں پہنچائی جاتی تھی، اگر ہم اپنے ملک میں اپنے رسول (ص) کی سیرت پر عمل نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
ذرا سوچئے! اپنے لئے، اسلام کے لئے، پاکستان کے لئے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn