ماں کائنات کی وہ ہستی ہے جس کے پیار میں رتی برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا، ماں خود بھوکی رہ کر بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے، ایک ماں کے جتنے بھی بچے ہوں وہ سب کو یکساں نظر سے دیکھتی ہے اور سب کا خیال رکھتی ہے، اپنے بچوں کے مابین مساوات، اخوت و محبت کا قائم رکھنے کے لئے ماں کا کردار نہایت ہی غیر جانبدارانہ ہوتا ہے۔
ممتا کے ان اوصاف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی صاحب الرائے نے ریاست کو بھی ماں کے مثل قرار دیا اور ریاست ہو گی ماں کے جیسی، یہ جملہ عام ہوا۔ اسی جملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج ایک جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا ریاست اپنے بچوں کے تئیں اچھی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے یا نہیں؟ اس ماں کا خواب ہے کہ اس کے بچے آپس میں اخوت و بھائی چارگی سے مل جل کر رہیں اور اس گھر یعنی پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن رکھیں مگر اس ماں کا ایک بیٹا اپنے دیگر بھائیوں کو اپنا بھائی تصور نہیں کرتا، وہ انہیں کسی تیسری دنیا سے آئی مخلوق سمجھتا ہے، وہ ان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ دن رات اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح ان کو گھر سے نکال پھینکے یا انہیں قتل کر دے۔
جب کہ اس کے مقابل دیگر بھائی اپنے گھر کی ترقی کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہیں، ان کی وجہ سے شہر میں اس گھر کی نیک نامی ہے اور لوگ ان بھائیوں کی صلاحیتوں کے معترف رہتے ہیں۔ جبکہ یہ شریر بیٹا ہوش سنبھالتے ہی بری صحبت میں آ گیا اور اپنے بھائیوں سے لڑائی کرنے لگا، اپنے بھائیوں کو مارتا رہا مگر ماں یہ سب کچھ دیکھتی رہی اور کچھ نہ کیا، اور جب اس بیٹے نے گھر سے باہر جا کر بھی لڑائیاں شروع کیں، لوگوں کو مارنا شروع کیا حتیٰ کہ گھر آئے مہمانوں تک کو نہ بخشا تب جا کر ماں کو خیال آیا کہ اس کی شدت پسندی گھر کے مفاد میں نہیں، ایک دن ماں نے اس بچے کو بٹھا کر بات کی اور اسے سمجھایا کہ اگر تم نے گھر کی عزت کا خیال نہ رکھا تو میں تمہیں عاق کر دوں گی۔ بچے نے ماں کی بات کو سمجھا اور اس بات پر حامی بھر لی کہ وہ لڑائی جھگڑے نہیں کرے گا مگر اس کے دل میں اپنے بھائیوں کے خلاف پلنے والا بغض اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا اور اس نے ساتھ ساتھ ماں سے اس بات کی ضمانت بھی لے لی کہ اس کے ہاتھ میں گھر کے کچھ معاملات کی زمہ داری دی جائے تو یہ اپنی بات کا مکمل طور پر پاس رکھے گا۔
ماں نے باوجود یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ بیٹا اگر گھر کے معاملات میں آگے آیا تو اس کے دیگر بھائیوں کے حقوق تلف ہوں گے، یہ ان کو تنگ کرنے کے لئے مختلف حیلے کرے گا اور جب یہ پوری طاقت میں آیا تو اپنے بھائیوں کو ناقابلِ برداشت نقصان دے گا مگر پھر بھی جانے کیا سوچ کر ماں نے اس کی بات مان لی۔
دوسری طرف اس ظالم بھائی کے ظلم سے ستائے ہوئے بچے اپنی ماں کے آگے فریاد کر رہے ہیں کہ ماں اسے ہم پر قدرت نہ دے کہ یہ ہمیں مزید تنگ کرے گا، ہماری جان و مال اس سے محفوظ نہیں نہ کبھی رہ سکتی ہے، اس نے مصلحت کی خاطر ہمیں مارنا ترک کر رکھا ہے مگر ہم سے اپنی نفرت کا اظہار جابجا کرتا رہتا ہے اور علی الاعلان کہتا ہے کہ میں اس گھر میں تمہارا جینا دشوار کر دوں گا، ہم اس کی ذہنیت سے واقف ہیں یہ مستقبل میں ہم سب کے لئے اور اس گھر کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ مگر ماں بجائے ان بچوں کی فریاد سننے کے کبھی انہیں جھڑک رہی ہے تو کبھی انہیں کمرے میں بند کردیتی ہے اور وہ مظلوم بچے روتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھ رہے ہیں کہ "اے ماں کیا ہم تجھے پیارے نہیں؟”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn