ماں بتاتی ہیں کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے بابا کی آنکھیں خوشی سے بھر آئی تھیں اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور خدا کا خوب شکر ادا کیا۔ وہ مجھے اتنا سنبھال سنبھال کر پالتے کہ جیسے میں کسی مزدور کا نہیں بلکہ کسی بادشاہ کا بیٹا تھا۔ ماں انہیں جب بھی پیغام بھیجتی کہ بچے کی طبیعت تھوڑی خراب ہے تو وہ کام کاج چھوڑ کر گھر اجاتے اور فوراََ سے مجھے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔
جب وہ پہلے دن مجھے سکول چھوڑنے آئے تو جاتے جاتے ٹیچر کو کہنے لگے "میرے بیٹے کا خیال رکھئے گا” اس وقت ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ میری ہر ضد پوری کرنے والے میرے بابا، مجھے دنیا کی برائیوں سے بچا کر رکھنے والے بابا، مجھے کہیں بھی اکیلا نہ چھوڑنے والے بابا نے نہ جانے وہ دن کیسے دیکھا جب میں اپنے سینے پر گولیاں کھا کر تڑپ رہا تھا۔ جب تک مجھے ہوش تھا میں دیکھتا رہا کہ میرے بابا اپنے ہوش و حواس میں نہ تھے، وہ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے، میرا نام پکار پکار کر دھاڑیں مار رہے تھے۔۔۔۔
مگر میں۔۔۔ میں بھی تو مجبور تھا۔۔۔ ظالموں نے اتنی گولیوں سے میرا سینہ چھیدا کہ میں بولنے کی طاقت بھی نہ جٹا پایا۔
کاش میں بول پاتا۔ اپنے بابا سے الوداع کہتا۔۔۔ ان کو کہہ پاتا کہ بابا نہ روئیں آپ! کہ ہم بروزِ محشر ملیں گے۔۔ اور خدا کے حضور التجا کریں گے کہ اور سوال کریں گے کہ ہم پر کس جرم کی پاداش میں اتنا ظلم کیا گیا؟؟ عین ممکن ہے ہماری التجا منظور کی جائے اور حکم صادر کیا جائے کہ ان ظالموں کو ان کے سہولتکاروں سمیت گھسیٹ گھسیٹ کر میدانِ محشر میں لایا جائے۔
مگر میں بول نہ سکا۔۔۔ میں ہمیشہ کیلئے سو چکا ہوں۔ میرے بابا کا اکیلا سہارا تھا میں۔۔ جن کاندھوں پر اٹھا کر وہ مجھے شہر کی سیر کروایا کرتے تھے آج انہی کاندھوں پر انہوں نے میرے جنازے کو اٹھا کر قبرستان پہنچایا اور کپکپاتے ہاتھوں سے مٹی کے حوالے کرکے گھر کو واپس چل دیئے اس حالت میں کہ بار بار گرتے اور بار بار اٹھتے۔ اے ظالمان! اے ان کے سہولت کارو۔۔۔ اے میرے ناحق قتل پر خاموش رہنے والو۔۔ میں محشر میں آپ کا منتظر رہوں گا۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn