بچے مسقتبل کا معمار ہوتے ہیں۔ جو اقوام اپنا مستقبل سنوارنا چاہتی ہیں وہ اپنے معماروں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں۔ ان کی تعلیم، تربیت، صحت، نشونما، کھیل، ورزش جیسی بنیادی سہولیات کو خصوصی ترجیح دی جاتی ہے، تاکہ آنی والی نسل بہترین انداز میں پروان چڑھ سکے اور ملک کے حالات سدھارنے میں معاون ثابت ہو۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 11 (3) کے تحت 14 سال سے کم عمر کسی بچے کو فیکٹریوں یا کسی دوسرے خطرناک کام پر نہیں لگایا جا سکتا۔ آرٹیکل 25 (3) کے مطابق ریاست بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کا مکمل حق رکھتی ہے۔ 20 نومبر 1989ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی منظوری دی۔ اس معاہدے پر، جو بچوں کو سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق فراہم کرتا ہے، پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک نے دستخط کیے۔
پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق 12 نومبر 1990ء میں کی جس کے مطابق اب حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے کہ ہر بچے کو چائلڈ رائٹس کمیشن کے تحت حقوق ملیں۔ عالمی معاہدے کے مطابق بچوں کے حقوق یہ ہیں: اٹھارہ سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو بچہ مانا جائے گا، بچوں کے حقوق کے لیے معاہدے میں ”غیر امتیازی سلوک، بچے کا بہترین مفاد، حقوق کا نفاذ، بچوں کی صلاحیتیں، زندگی، پرورش، نام، شہریت، تحفظ و شناخت، والدین سے علیحدگی، خاندانی رشتے، اغوا، بچوں کی رائے، آزادی اظہار، مذہب، تنظیم سازی کی آزادی، تنہائی یا خلوت کا تحفظ، مناسب معلومات، والدین کی ذمہ داری، تشدد سے تحفظ، بچے کی حفاظت، بچے کو گود لینا، مہاجر/ پناہ گزین بچے، معذور بچے، صحت اور سہولتیں، نگہداشت کے مراکز، معاشرتی تحفظ، معیارِ زندگی، تعلیم، بہتر تعلیمی نظام، خصوصی/اقلیتی بچے، بچوں سے مشقت، ممنوعہ ادویات سے تحفظ، جنسی تشدد، بچوں کی خرید و فروخت، استحصالی عوامل، جسمانی تشدد، مسلح تصادم، بحالی حقوق اطفال، عدالتی انصاف کا حصول، اور اعلیٰ معیارکے لیے جدوجہد” وغیرہ شامل ہیں۔
دنیا بھر میں بچوں کی حفاظت اور کم عمری میں مزدوری (Child Labor) کے خلاف سخت اقدامات اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تاکہ چائلڈ لیبر جیسے جرائم کی روک تھام کی جا سکے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں صورت حال ابتر ہے۔ تعلیم، صحت، کھیل کی بنیادی سہولیات تو کجا کم عمر افراد کی ایک کثیر تعداد مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بیشتر ممالک میں کمسن مزدوروں کی شرح کم ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق وہ بچے جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں لیکن اس کے باوجود محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں، ان کی تعداد پاکستان میں تقریباً 8 سے 9 ملین کے قریب ہے۔تقریباً 3.7 ملین بچے جن کی عمریں 10 سے 17 سال کے درمیان ہے، مزدوری یا نوکری کر کے اپنا گزارا کرتے ہیں۔ وہ بچے جن کی عمریں 10 سال سے بھی کم ہیں ان کی تعداد 6 ملین سے بھی زیادہ ہے۔
ان میں سے اکثر گھروں، ہوٹلوں، دکانوں، ورکشاپ، بھٹی، اور چھوٹی صنعتوں میں ملازمت کرتے ہے۔ چائلڈ لیبر کی سب سے خطرناک صورت گداگری ہے جس میں ان کم عمر بچوں کو کبھی اغوا کرکے تو کبھی گھر والوں سے خرید کے مختلف گروہوں کو بیچا جاتا ہے جو انہیں یا تو سالم یا پھر جبراً معزور کرکے بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے کئی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذہنی و جسمانی طور پر کمزوری شکار ہوتے ہیں۔ یا پھر آئے روز تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ نتیجتاً، ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ اور اچھائی کی بجائے برائی کے دامن میں پناہ حاصل کرتا ہے۔ یہاں بحیثیت قوم اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے چائلڈ لیبر کے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ روشن مستقبل کا خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn