Qalamkar Website Header Image

حقوقِ مرداں

Humera Baigبلاشبہ عورت معاشرے کا پسا ہوا اور کچلا ہوا طبقہ ہے۔حقوقِ نسواں،عورتوں کے حقوق اورفیمینزم جیسی اصطلاحات ہر روز کسی نہ کسی فورم سے سننے کو ملتی ہیں ۔میں خود عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہوں اکثر اس پہ لکھتی رہتی ہوں لیکن ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں ۔اگر ہم کسی تصویرکوبھی پوری توجہ سے اس کے ہر رنگ اور ہر انداز کی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں دوسرا رنگ نظر آنے لگتا ہے۔میرا مشاہدہ بھی کچھ ایساہی ہے کہ ہر جگہ عورت ہی نہیں مرد بے چارے بھی پستے ہیں ۔جس طرح عورت پہ بد کرداری کا الزام لگانا حد درجہ آسان ہے بالکل اسی طرح مرد کو جابراور ظالم کہنا بہت آسان ہے۔ہمارے ملک میں اکثریت ایسے گھرانوں کی ہے جہاں صرف مرد گھر میں پیسہ لانے کا یعنی کمانے کا ذمہ دار اور ذریعہ ہے۔ہم مشاہدے کی دوربین سے دیکھیں تو ہمیں مرد کا کردار مختلف روپ دھارے ہوئے نظر آتا ہے۔وہ تپتی ہوئی دوپہر میں مزدوری کرتا ہے ۔راج گیری کرتا ہے ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ پہ کام کر رہا ہوتا ہے جہاں گرمیوں میں ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں ہوتا ۔اگر دکان میں کام کرتا ہے تو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سخت لُومیں سیلنگ فین پہ ہی گذارا کرتا ہے جس کی ہوا تیز لُو میں اور بھی گرم ہو جاتی ہے۔جبکہ خواتین کو گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر ائیرکولر وغیرہ سے مستفید ہونے اور گرمیوں کی دوپہر گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔کچھ مرد حضرات جنرل سٹورز وغیرہ پرصبح سویرے سے لے کر رات دیر تک ان تھک محنت کرتے نظر آتے ہیں بعض اوقات گھر یا ہوٹل سے آیا ہوا کھانا چھوڑ کرکسٹمر ڈیل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔یہی حال فیکٹری اور مل ورکرز کا ہے کبھی صبح کی ڈیوٹیاں تو کبھی رات کی۔۔۔ٹھٹھرتی ہوئی سخت سردیوں میں آنکھوں میں نیند لیے ہوئے یہ صبح سویرے نکلتے ہیں تو کبھی ساری رات جاگ کر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ۔بزنس مین اور کاروباری حضرات بھی دن رات ایک کر کے پیسہ کماتے ہیں ۔آخر اس قدر بھاگ دوڑ کس کے لیے ۔اتنی محنت کس کے لیے۔مرد پیسہ کما کر آخر لاتا کہاں ہے۔صاف جواب ہے کہ گھر میں۔۔۔ جہاں ایک عدد بیوی ہوتی ہے بچے ہوتے ہیں ۔وہاں کیا ہوتا ہے میں جو بات کرنے جا رہی ہوں ملحوظِ خاطر رہے کہ تمام گھروں میں ایسا نہیں ہوتا مگر اکثریت ایسے ہی گھرانوں کی ہے کہ مرد تھکا ہارا ہوا گھر آتا ہے اور آگے ساس بہو کا سین ڈراپ ہونے کے لئے اس کا محوِ انتظار ہوتا ہے ۔گھر آتے ہی دونوں فریقین جکڑ لیتے ہیں ۔ایک طرف ماں دوسری طرف بیوی۔۔۔بےچارہ مرے کیا نہ کرے ۔نتیجہ سکون غارت ۔۔۔پھر اکثر خواتین ایسی ہیں کہ گھر کے تمام کام ختم ہو جانے کے باوجود اپنی حالت کی طرف توجہ نہیں دیتیں ۔خود کو بنانا سنوارنا تو ایک طرف اپنا وہ حشر کیا ہوتا ہے کہ گھر آکر مرد کی بیوی کو دیکھ کر جو تھکن اترنا ہوتی ہے مزید دردِسر بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے مرد اخبارات یا رسالوں میں شوبز کی خواتین کو دیکھ دیکھ کر شوق پورا کر لیتے ہیں ۔بھئی ایک چیز فطری طور پر ان میں موجود ہے تو اس کوان کی برائی تو نہ کہو۔اور سب سے بڑٰی اور عام بیماری جو اکثریت ِنسواں کو لاحق ہے وہ ہے دوسروں سے اپنے ہی شوہر کی برائیاں اور ناشکری کرنا۔ مجھے ایک دوست کے ساتھ ان کی کسی عزیزہ کی طرف جانے کا اتفاق ہوا ۔گھر خوب صورتی کے ساتھ ساتھ پرآسائش ہونے کا بھی ثبوت دے رہا تھا۔ضروریات ِزندگی سے ہر طرح سے معمور تھا ۔بچے مہنگے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔گھر میں دو ملازمائیں کام کررہی تھیں ۔خاتونِ خانہ کی فربہی بتا رہی تھی کہ وہ ہمہ وقت بیٹھنے میں مصروف رہتی ہیں۔موصوفہ کے مطابق وہ سارا دن ملازماؤں اور بچوں کے ساتھ مغز ماری کرتی ہیں ۔۔مشروب پیش کیے جانے کے بعد ایک دو ادھر ادھر کی باتیں کیں اور پھر شوہر کی برائیاں اور نصیب کا رونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کیا بتاؤں ۔۔۔گھر آتے ہی سیدھے کمرے میں گھس جاتے ہیں کہ بس اب مجھے آرام کرنا ہے۔ماتھے سے بل نہیں اترتے کبھی ایک فون آرہا ہے کبھی دوسرا ۔کہیں جانے کے تیار ہونے میں ذرا سی دیر ہو جائے تو چلاّنے لگتے ہیں ۔آفس سے آکر بھی نہ پوچھتے ہیں دن کیسا گذرا نہ بچوں کی پڑھائی کا کبھی پوچھا ہے۔ہر وقت پیسہ پیسہ ۔۔۔۔۔اور تو اور ہر اتوار کو ماں کے گھر جانے کی کیا ضرورت ہے بھلا۔۔۔۔ٹھیک ہے بچوں کو دوسرے تیسرے دن گھمانے لے جاتے ہیں مگر اتوار بھی تو اپنے گھر میں گذارنا چاہیے۔بس کیا کہوں مجھے تو شوہر کا پیار ہی نہیں ملا نصیب ہی سوئے ہوئے ہیں میرے تو”۔۔۔۔۔یہ کہہ کر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور خاموش ہو گئیں اور بچوں کو دوسرے کمرے میں چھوڑنے چلی گئیں جن کو”مہنگے” ٹیوٹر پڑھانے آچکے تھے اور میں اس کی باتیں سن کر سکتے میں آگئی۔شوہر نے پہلے تو اسے الگ گھر لے کر دیادو دو ملازمائیں رکھ کے دیں گھر میں پیسے اور سہولیات کی فراہمی و فراوانی۔۔۔۔۔۔بچے مہنگے سکول اور ہوم ٹیوشن لے رہے ہیں شوہر کماتا ہے تو کس کے لیے ۔گھر کا ہر سکھ دے رکھا ہے اگر یہ سوئے ہوئےنصیب ہیں تو جاگے ہوئے کیسے ہوں گے۔عورت کی نفسیات اور جذبات کی اہمیت میں تو صفحوں کے صفحے تحریر کیے جاتے ہیں تو کیا مرد کی نفسیات اور جذبات واحساسات کوجاننا اور ان کا خیاَل عورت پہ فرض نہیں ۔کہ اگر آفس سے گھر آ کر بھی اس کا موڈ خراب رہتا ہے ماتھے سے بل نہیں جا رہے تو ہوسکتا ہے کہ آفس میں کوئی پریشانی ہو۔۔۔۔۔۔بجائے شوہر سے پوچھنے یا ہمدردی و محبت جتانے کے وہ گلہ کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی نہیں میرے مشاہدے میں ایسی خواتین بھی آئی ہیں جن کے شوہر اپنی بساط سے بڑھ کے خرچ دیتےہیں مگر انہوں نے مشہور یہی کررکھا ہوتاہے کہ ایک روپیہ نہیں دیتا۔ہر جگہ صورتحال مختلف ہے کہیں عورت مظلوم ہے تو کہیں مرد مظلوم ۔ہم بیٹی کی پیدائش پہ فوراً تڑپ کے پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ اس کےنصیب اچھے کرے کبھی کسی نے بیٹے کے لیے بھی اچھے نصیبوں کی دعا کی ہے؟ ۔کیا ہربیٹے کا نصیب اچھا ہوتا ہے ۔انہیں بھی شریکِ سفر اچھی نہ ملے تو کیا ان کی زندگی خراب اور ان کے نصیب سیاہ نہیں ہو سکتے؟۔۔۔۔۔۔آج کی پڑھی لکھی اور باشعور عورت پر ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کیوں کہ اب معاشرے کی توقعات اس سے وابستہ ہیں اس کے ذہن کو اپنے ہم وجود منفی ذہنوں پر اثر انگیز ہوتے ہوئے انہیں بدلنے کی اپنی سی کوشش کرنا ہوگی ۔زیادہ کچھ نہیں تو اپنی ہم جولیوں اپنی ساتھی دوستوں کواپنی فہم و فراست استعمال کرتے ہوئے شوہر کی غیبت نہ کرنے کی ترغیب بھی تو دی جا سکتی ہے۔باتوں باتوں میں کئی مسائل کا حل بھی تو بتایا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔یہ ایک عورت ہی بخوبی جانتی ہے کیوں کہ عورت کو قدرت نے کوئی بھی منظم حکمت عملی بنانے اور برتنےکا خاص ملکہ عطا کیا ہے جو اگر منفی کے بجائے مثبت استعمال ہو تو ہماری نسلیں ہی سنور جائیں

حالیہ بلاگ پوسٹس