آج سے چھ ماہ پہلے تک میں خود کو بہت چالاک، سمجھدار، محتنی اور خوش قسمت انسان سمجھتا تھا۔ کیونکہ ایف اے پاس انسان کے لیے یہ بہت بڑی بات ہو گی کہ بہت کم عرصہ میں سعودیہ میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرے، پھر اس کو کامیابی سے چلائے اور بہت بڑی کمپنیز کے ساتھ کنٹریکٹ بھی ہو جائے۔ جو انسان پاکستان میں ایک شوگر مل میں 6000 تنخواہ لے رہا ہو وہ چند سالوں میں دریا غیر میں بزنس مین بن جائے تو انسانی فطرت ہے کہ اس کا دماغ آسمان کو چھونے لگ جاتا ہے۔
یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ ﺟﺐ وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محتنی چالاک اور منظم ہے اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے جن کے پاس پیسے کی کمی ہوتی ہے ان پر تنقید کرتا ہے ان کا مذاق اڑاتا ہے.
مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا. اگر آپ اچھا کما رہے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رہے ہیں۔ اگر آپ کسی مہلک بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظان صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ قبرستان ایسے بہت سے انسانوں بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی جیسے امراض نے دبوچ لیا اور وہ چند دنوں یا چند لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔
اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب و باحیا و باکردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سارا کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیونکہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنے اور ہوشیار ہیں بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب پھٹکنے نہیں دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانی سے محفوظ رہیں۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے۔ اول: جو کچھ مل رہا ہے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا تنیجہ اور مالک کا شکر بجا لاتا رہے۔
دوئم : جن کو کم رزق مل رہا ہے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسد کرے۔ اگر آپ کے پاس رزق کی فروانی ہے تو یہ اللہ کی کرم نوازی ہے اس تقسیم کے راز وہی جانتا ہے۔ سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کریں زیادہ ہے تو اس کے مطابق مدد کریں، کم ہے تو کم سے مدد کریں۔ سے زیادہ حق دار، والدین اور محرم رشتوں کا ہے نانا نانی، دادا دادی بہنیں اور بھائی ہیں اس کے بعد خون کے دوسرے رشتے ہیں جیسے خالہ ، پھوپھی، چچا، ماموں چچی وغیرہ پھر دوسرے قریبی رشتہ دار یا مسکین و لاچار لوگ۔ یقین کریں کہ جب بہت سے ہاتھ آپ کے حق میں دعا کے لیے اٹھیں گے تو برکت اور خوشیاں موسلا دھار بارش کی مانند برسیں گی جس کی ٹھنڈی پھوار آپ کی زندگی کو گلشن بنا دے گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn