ھالہ میں داخل ہوئے تو کئی جگہ پر میں نے اسی کالعدم تنظیم کے جھنڈے لہراتے دیکھے اور پھر بھٹ شاہ کی داخلی سڑک کے عین شروع میں ایک مسجد اور مدرسہ دیکھا جس پہ تکفیری تنظیم کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور ساتھ ہی ایک دیوار پہ لکھا تھا ۔۔۔کافر کافر۔ ش ۔ کافر ۔ میرے ذہن میں ھالہ سے تعلق رکھنے والے ایک سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے بلوچ نوجوان کے الفاظ گونجنے لگے کہ اس کے شہر ھالہ میں لوگوں کے فیصلے اب سپاہ والے تکفیری کرتے ہیں اور ان کے مدارس کے جال دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتے جارہے ہیں ۔اور وہ کہتا تھا کہ لوگوں کا ریاست کے اداروں سے ہی اعتماد اٹھتا جارہا ہے ۔
ایک اور پی ایچ ڈی کا طالب علم جس کا تعلق نوشہروفیروز کی ایک تحصیل کے گاؤں سے تھا کہنے لگا کہ وہ کچھ سروے کرنے کے لیے نارتھ سندھ کے پانچ اضلاع میں گیا تو وہاں کھمبیوں کی طرح مدارس اگے دیکھے اور ایسے بھی گاؤں تھے جن گاؤں میں مشکل سے کل پچاس بچے ہوں گے پورے گاؤں میں لیکن مدرسے میں200/400 بچے زیر تعلیم تھے جبکہ شہروں میں یہ تعداد2000 سے بھی آگے پہنچے دکھائی دے رہے تھے اور یہ مدرسے بھی زیادہ تر سپاہ صحابہ پاکستان کے تھے ۔یہ نوجوان مجھے بتارہا تھا کہ ان کے گاؤں میں پہلے مشکل سے دس پندرہ گھرانے دیوبندی مکتبہ فکر سے تھے اور وہ بھی بہت اعتدال پسند تھے مگر اب تو ہر ایک سنی گھر میں ایک یا دو فرد ضرور دیوبندی ہے جبکہ ماضی میں لفظ وھابی جو گالی سمجھا جاتا تھا اب ایسا نہیں خیال کیا جاتا۔اس نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کچھ سید گھرانے دیوبندی تھے جن میں سے ایک گھر کا لڑکا کراچی جامعہ بنوریہ پڑھنے گیا اور مولوی فاضل بن کے آیا تو اس نے وہاں پہ سخت منافرت پیدا کردی ۔اس کے بزرگوں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ باز نہ آیا ۔اب ان کے گاؤں کی فضا ء بہت ہی عدم برداشت والی ہوگئی ہے۔کہتا ہے کہ سنی بریلوی سے دیوبندی بننے کا عمل تیز ہے جبکہ مولوی علی شیر حیدری کے بیٹےکا اثر ورسوخ بڑھ گیا ہے ۔اور اگر وڈیرے نہ ہوں تو مولوی فضل الرحمان کی جماعت نارتھ سندھ سے چار سے پانچ ایم پی ایز کی نشستیں جیت لے گی۔یہ نوجوان کہہ رہا تھا کہ ایک طرف تو تکفیریوں کو بہت آسانی سے پھلنے پھولنے دیا جارہا ہے تو دوسری طرف سندھ میں شہر شر گوٹھ گوٹھ ایم ڈبلیو ایم کے دفاتر کھل رہے ہیں اور تکفیری فاشزم کے ردعمل میں ایک اور طرح کا دائیں بازو کی مذہبی سیاست اپنے عروج پہ ہے جس سے سنی آبادی کو تکفیریوں کا شام ،عراق پہ موقف ٹھیک لگنے لگا ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ تکفیری فاشزم ہو۔یا سیاسی اسلام ازم جوہے اس کا جواب اور متبادل وہ نہیں ہے جو شیعہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے سامنے آرہا ہے بلکہ اس کا متبادل سندھی صوفی واد سیکولر نیشلسٹ متبادل ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ شیعہ دائیں بازو کی سیاست نے سیکولر سیاست کا سکوپ کم کیاہے اور سیاست کو اور زیادہ فرقہ پرستانہ اور زیادہ گندہ کیا ہے ۔اس نے کوئی امید کی کرن پیدا نہیں کی ہے۔
سندھ کے گوٹھوں اور اندرون سندھ کے شہروں میں بڑی تیزی سے مذہبی تقسیم گہری ہورہی ہے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کا حال یہ ہے کہ اس نے حیدر آباد ،لاڑکانہ سمیت جہاں جہاں یونیورسٹیاں اور کالجز تھے وہاں پہ سیکولر ،نیشنلسٹ عناصر کے خلاف غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن کرکے کیمپس میں کم ازکم آزادی کو ختم کردیا ہے ۔اور جی ایم سید ،حیدر بخش جتوئی سمیت اس خطے کے مہان سندھی اگوان بارے جاننے کا باب بند کردیا ہے ۔ اور مذہبی جنونیت ، تکفیریت ، انتہاپسندی کے مقابل قوم پرست سیکولر صوفی واد متبادل کا راستہ منظم طریقے سے روکا جارہا ہے اور پی پی پی ، جسقم جیسی جماعتوں کا راستہ ملڑی اسٹبلشمنٹ روکنے میں لگی ہوئی ہے ۔اور ایسے میں جب فیصل رضا عابدی سمیت شیعہ کمیونٹی پہ اپنا حق جمانے والے یا سنی بریلویوں کے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے لیڈر ملٹری اسٹبلشمنٹ کی عظمت کے گن گاتے اور ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور جذباتی نعرے بازی سامنے آتی ہے تو میرے ذہن میں لامحالہ یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لیڈر شیعہ ،صوفی سنی عام آدمی کے ساتھ وہی سلوک کروانا چاہتے ہیں جو بنگال میں بہاریوں کے ساتھ ہوا تھا ۔دائیں بازو کے بریلوی اور شیعہ لیڈروں کی بے اعتدالی اور انتہائی سطح کے اقدامات کے سبب عملی طور پہ دیوبندی مکتب کے عام لوگوں سے مکالمہ بند ہوچکا ہے اور اس مکتب کے نوجوانوں میں تکفیری آئیڈیالوجی کے لیے کشش بڑھتی جارہی ہے جبکہ سندھ میں دیوبندی مذہبی لیڈر شپ نے بہت ہی خوبصورتی سے سندھی قومی سوال سے ہمدردانہ موقف اختیار کررکھا ہے جس سے جسقم کے ایک حصے میں تکفیری عسکریت پسندوں سے قربت بھی محسوس کی جارہی ہے اور اس میں خالدسومرو کا بڑا ہاتھ تھا ۔اور یہی وجہ ہے کہ سندھی لکھاریوں اور دانشوروں میں اس کے حوالے سے خاصی نرمی موجود ہے۔ جبکہ شیعہ اور صوفی سنی کمیونٹی کی دائیں بازو کی مذہبی قیادت کو سندھی نوجوان اسی طرح سے اسٹبلشمنٹ کا پٹھو خیال کرتے ہیں جیسے وہ سندھ کے اندر اہلسنت والجماعت اور جماعت دعوۃ کے بارے میں خیال رکھتی ہے ۔سندھی نیشنلسٹ اور پی پی پی کے ساتھ قربت محسوس کرنے والے بائیں بازو کے دانشور اور شاعر و ادیب جن نوجوانوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ فیصل رضا ، امین شہیدی ، راجہ ناصر عباس ، حامد رضا یا کسی اور ہما شما کے اوپر راضی ہوگی خوابوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔اور ان کے کہنے پہ وہ بھٹو لیگسی ، جی ایم سید لیگسی ، لیفٹ لیگسی کو چھوڑدیں گے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے پیش کردہ نام نہاد پاکستانی نیشنلزم پہ ایمان لے آئیں گے تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔شیعہ اور صوفی سنی کمیونٹی کے جو لوگ تکفیری فاشزم کے خلاف سندھی ،بلوچ ،سرائیکی ، پشتونوں کی انٹیلیجنٹسیا کی حمائت کے طالب ہیں اور تکفیری فاشزم کے خلاف قومی سطح کی تحریک کا قیام چاہتے ہیں تو میں صاف صاف کہتا ہوں کہ ان کو بلوچ ، سندھی ،پشتون ،سرائیکی اقوام کے قومی سوال پہ موقف بنانا ہوگا اور ان کو ریاست سے جس قسم کے جبر اور ظلم کا سامنا ہے اور جو جنگ ان اقوام پہ مسلط کی گئی ہے اس پہ موقف بنانا ہوگا ۔اور اعتدال پسند دیوبندی اکثریت سے اپنے جڑے رابطے کو بحال کرنا ہوگا اور ان سے مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا تبھی ہم آنے والے دور کے ہیجان خیز اور پرتشدد مظاہر سے بچنے کی امید کرسکتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn