Qalamkar Website Header Image
Zaheer Ahmed Sulehri

ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہر کتنا کماتے ہیں؟

علم حاصل کرنے اور ڈگری حاصل کرنے میں نیت کا فرق ہے ۔ ڈگری رسمی تعلیم اور اس کے تقاضے پورے کرنے والوں کو ملتی ہے ۔ علم کے ذرائع اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔عموماََ  ڈگری کو روزگار سے منسلک کرنے والوں پر ہلکی پھلکی تنقید کی جاتی ہے مگر حقیقت پسندی سے کام لیں تو پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں عوام کی اکثریت روزی روٹی پوری کرنے کے دائرے میں زندگیاں گزار رہی ہے ، تعلیم کا اصل مقصد نوکری کا حصول ہی ہے ۔ نوے کی دہائی میں ایف ایس سی کرنے کا رواج ہوا تو دھڑا دھڑ لوگ اپنے بچوں کو سائنس پڑھانے لگے۔ پھر کمپیوٹر آیا تو آئی سی ایس کرنے پر زور دیا جانے لگا۔ اس کے بعد بزنس کی تعلیم کا رجحان دیکھنے میں آیا تو دھڑا دھڑ آئی کام اور بی کام کے ڈگری ہولڈر پیدا ہونے لگے۔ ڈاکٹر ،کمپیوٹر ایکسپرٹ اور بعد ازاں بینکر بننے کی بھیڑ چال دیکھنے میں آئی۔ ایم اے صحافت ، میڈیا کی ترقی کے بعد ماس کمیونیکیشن ہوگیا۔ مشرف کے زمانے میں جب نجی ایف ایم اور ٹی وی چینلز کھولنے کی اجازت ملی تو پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے کے بعد سب سے ہائی میرٹ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا تھا۔ رپورٹر اور اینکر پرسن بننے کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا۔ نوکری کے ذریعے پیسہ اور شہرت کمانے کا آپشن کسے اچھا نہیں لگتا۔

ایک مڈل کلاس نوجوان کے لئے کم وقت میں یہ دونوں حاصل کرنے کے دو رہی راستے تھے۔ پہلا یہ کہ گریجوایشن کے بعد سی ایس ایس یا پی ایم ایس کریں۔ اسسٹنٹ کمشنر ، اے ایس پی بھرتی ہوں ۔ اس سے جہاں اچھی تنخواہ ملنے کے امکانات ہوتے ہیں وہیں معاشرے کے اندر باعزت مقام بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔ دوسری آپشن صحافت تھی اور ہے ۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اگر رپورٹر یا اینکر محنت کرتا ہے تووہ بہت جلد ٹی وی اسکرینز پر نظر آنا شروع ہوجاتا ہے ۔اس کا سوشل سٹیٹس دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے ۔ اخبارات کے بعد ٹی وی اور اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ پیسہ اور شہرت کمانے کا طریقہ کافی حد تک اپ گریڈ ہوچکا ہے ۔ ماس کمیونیکیشن کے اندر اب سپیشلائزیشن آچکی ہیں۔ جیسے ڈاکٹر جسم کے ہر حصے کا الگ ہوتا ہے ۔اسی طرح اب کمیونیکیشن کو بھی ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ، پی آر اینڈ ایڈورٹائزنگ ، فلم اینڈ ٹی وی، ڈیجیٹل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اینڈ ریسرچ جیسے ٹائٹلز مل چکے ہیں۔ یہ سب پیغام رسانی اور پراپیگنڈہ کے مختلف طریقے ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے کے اندر مختلف انداز سے شعور بیدار کر کے تبدیلی لانا ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  ایک تھی عائشہ ممتاز - محمد نورالہدیٰ

ان ٹولز کو کاروباری لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں اور ریفارمرز بھی۔ لوگوں کے ذہن بدل کر اگر چیز بیچی جاسکتی ہے تو آئیڈیاز بھی بیچے جاسکتے ہیں۔ ترقی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مائنڈ سیٹ بدلا جائے ۔ ذہنی ترقی اور سوچ میں بہتری کے لئے کام کئے بنا انفراسٹرکچر پر کام کرنا بے سود ہے ۔ انسان کو دوسرے انسانوں کی موجودگی کا احساس دلانا، معاشرے میں مل جل کر رہنے کی افادیت اور پھر مختلف وباؤں اور مسائل سے مل کر لڑنے کے لئے قائل کرنا ضروری ہے ۔

فرسودہ روایات سے نقصان انسانی جانوں کو ہی ہوتا ہے ۔ لوگ بیمار ی میں جعلی عاملوں او رپیروں کے ہاتھوں زندگیاں گنوا دیتے ہیں ۔ ایسے زہریلے نظریات پنپ رہے ہیں کہ جن کو اگر بدلا نہ جائے تو اس سے مجموعی طور پر نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ لوگوں کو بدلتے ہوئے حالات اوراس کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والے جو مبلغ ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی سائنس کو پڑھیں۔ اور تبلیغ کو بھی سائنسی انداز میں کرنا سیکھیں۔ اصلاح بھی اب محض آرٹ نہیں رہی بلکہ سائنس بن چکی ہے۔ لوگوں کے حالات زندگی اور کوالیفیکیشن کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیغام تیار کئے جاتے ہیں۔ ان پیغامات کو ایک کیمپین کی صورت بڑی مہارت سے لانچ کیا جاتا ہے ۔ پھر رویوں پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ اس مسلسل عمل سے کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لئے کام کیا جاتا ہے ۔

اب اگر ایک نوجوان کے پاس ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی ڈگری ہے تو وہ کہاں کہاں نوکری حاصل کرسکتاہے ۔ پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں این جی اوز کام کررہی ہیں۔ انہیں لوگوں کو قائل کرنے کے لئے ان ماہرین کی ضرورت ہے ۔ اپنا پیغام بنانے اور پہنچانے کے لئے وہ ڈویلپمنٹ کے ماہرین کی بھاری معاوضے پر خدمات حاصل کررہی ہیں۔ عالمی ڈویلپمنٹ ایجنسیز جن میں اقوام متحدہ ، ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ شامل ہیں ، ان کے پراجیکٹس میں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ دی جارہی ہے ۔ سرکاری ادارے جن میں محکمہ بہبود آبادی ، صحت کی وزارت اور دیہی تعلیم کے ادارے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہرین کو بھرتی کررہے ہیں۔ پبلک ریلیشنز کے محکموں میں بھی ایسے ماہرین ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں ،جن کو رویوں میں تبدیلی کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مہارت حاصل ہو۔

یہ بھی پڑھئے:  جل" جیون ہے - سعد الرحمٰن ملک"

میڈیا کے اندر ڈویلپمنٹ سیکٹر پر رپورٹنگ کرنے کے لئے اس کمیونیکیشن کے ماہر ہی کام آتے ہیں۔ محکمہ ماحولیات کو ان کی اشد ضرور ت ہے ۔ آلودگی کم کرنے کے لئے کئی ایک محاذ پر کام کرنا پڑتا ہے ۔کہاں مسئلہ ہے اوراس کوکیسے حل کرنا ہے یہ بات مسلسل عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے جو کہ اسی ڈگری کے حامل لوگوں کا کام ہے ۔ کووڈ کے بعد خاص طور پر صحت کے میدان میں ہیلتھ کمیونیکیشن کی اہمیت کاادراک ہوا ہے ۔ لوگ ویکسینیشن کے اندر بھی سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پولیو کے قطرے بچوں کو نہیں پلاتے۔ ان کی ذہن سازی کے لئے ماہرین کے طور پر ہائر کیا جاتا ہے ۔ ڈویلپمنٹ اور سوشل چینج پر تحقیق کرنے والے اداروں کو ان کی ضرورت ہے ۔ سرکاری نوکری میں ہزاروں اور عالمی اداروں میں نوکری حاصل کرکے ڈالرز کمانے ہیں تو  ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنا ایک بہتر آپشن ہے ۔

 

حالیہ بلاگ پوسٹس