Qalamkar Website Header Image

شوق کا کوئی مول نہیں

Aamna Ahsanکہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں ،،، ٹھیک کہتے ہیں ۔
آپ روزمرہ کتنے ہی لوگوں سے ملتے ہیں ، interact کرتے ہیں ۔
فیملی سے لے کر دوستوں تک بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں ۔
ان تمام لوگوں کو کسی نا کسی قسم کا کوئی شوق تو ضرور ہوگا ۔
کسی کو جدید موبائل رکھنے کا شوق ہوتا ہے ، تو کسی کو ہاتھ میں پہننے والی گھڑیاں اکھٹا کرنے کا شوق ہوتا ہے ۔ کوئی جوتے دیکھ کر خود کو نہیں روک پاتا تو کوئی میک اپ خریدنے میں مصروف ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین کا صرف ایک ہی شوق ہوتا ہے اور وہ ہے شاپنگ ۔
ویسے مجھے اس تحقیق سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ۔
بات صرف یہ ہے کیا میرا شوق میرے اردگرد موجود لوگوں سے مختلف ہے ۔
وہ شوق ہے کتابیں خریدنا ، پڑھنا اور انہیں اپنے آس پاس موجود لوگوں سے ڈسکس کرنا ۔
جب میں 8،9 سال کی تھی تب سے میرے بہن،بھائی تو اپنے پسندیدہ کھلونے لینے پر زور دیتے تھے،اور میں صرف ” بچوں کی دنیا ” یا ” تعلیم و تربیت ” لینے پر اکتفا کرتی تھی۔ آج بھی جب کبھی کسی بک اسٹور میں گھس جاؤں ، مشکل سے ہی با ہر نکلتی ہوں ، اور وہ بھی اداس چہرے کے ساتھ ۔ جب کوئی کتاب لیتی ہوں دو،دو دن تک اسے اپنے سائیڈ ٹیبل سے نہیں ہٹاتی ، ہر 5 منٹ میں کتابوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہوں ۔
پاکستان میں اگر آپکو کتاب پڑھنے شوق ہے تو آپ کو اپنے آپ کو مختلف قسم کے حالات کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوتا ہے ۔
لوگ آپ سے مل کر ، آپکا شوق جان کر جو پہلی بات کرتے ہیں وہ کچھ ایسی ہوتی ہے ۔
کتابیں پڑھتے ہو؟ مطلب؟ یہ کیسا شوق ہوا؟ بندہ فارغ وقت میں بھی پڑھیں ؟
تم کتنی بور ہو وغیرہ وغیرہ ۔
دوستوں اور جاننے والوں کا شکوہ کیا کرنا اکثر تو آپ کے والدین بھی آپکو ہر نئی کتاب لینے پر نالاں نظر آئیں گے ۔
بہن بھائی آپ سے پناہ مانگیں گے ۔
اور آپس کی بات ہے وہ اندر سے آپ کو بہت ناپسند بھی کریں گے ، کیونکہ آپ کا شوق کتاب پڑھنا ہے اور انکا ویڈیو گیم کھیلنا
ظاہر ہے والدین 4 گھنٹے کتاب تو پڑھنے دے سکتے ہیں لیکن ویڈیو گیم تو 4،5 گھنٹے نہیں کھیلنی نا ۔
اب آجائیں دوستوں کی طرف ، میرے فیس بک اکاؤنٹ میں شامل %50 سے زیادہ دوست میری شیئر کی ہوئی کوئی تحریر پسند نہیں کرتے ،پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے ۔
کچھ دوست ہیں جنھیں میری طرح کتابیں پڑھنے کا شوق ہے ۔ اور وہ لوگ میرے پسندیدہ لوگ ہیں۔
میرے کچھ ایسے دوست بھی ہیں جو مجھے ” فارغ عوام ” کہتے ہیں ۔
ایک دفعہ میری ایک سہیلی نے میری بک کلیکشن دیکھ کر کہا ، تم پاگل ہو ، کتابیں بھی کوئی جمع کرنے کی چیز ہیں ؟ ردی ہے یہ اسے بیچ دو کافی پیسے آجائیں گے ۔
پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ ہمیں کتب بینی کا شوق نہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے ۔
عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں تحقیق کا کوئی کام نہیں ہو رہا ، اور ہم میں سے 1% نے بھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا ۔
آپ کسی بھی ملک میں چلیں جائے ، لوگ آپکو ہر جگہ ہاتھ میں کم از کم ایک کتاب پکڑے نظر آئیں گے ۔
مگر ہم آج تک اسکول کی کتابوں سے نفرت کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ کوئی اور کتاب پڑھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
کتاب آپکی بہترین دوست ہے ، یہ معلومات کا خزانہ ہے ۔کتب بینی آپ میں شعور پیدا کرتی ہے۔ آپ کے سوچنے کے انداز کو مختلف اور عمدہ بنانے میں مددگار بنتی ہے ۔
کتب بینی کی عادت ڈالیے خود کو بھی اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو بھی ۔ اپنے بچوں کو کتاب پڑھنے پر آمادہ کریں ، ا نہیں تحفے میں کتاب دیجیے اور اسے پڑھنے پر کسی انعام کا وعدہ کر لیجیے ۔ اور پھر انکی تربیت اور سوچ میں آنے والی تبدیلی کو نوٹس کریں ۔ پاکستان کو باشعور کرنے کے لئے یہ ناگزیر ہے ۔

Views All Time
Views All Time
448
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »