پاکستان کی مستند محب وطن قوتوں کی جانب سے یہ خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ پاکستان کی تمام قابل ذکرتمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اور اسٹبلشمنٹ کے لیے قابل قبول بنانے کے واسطے مائنس ون فامولے پر عمل پیرا ہیں۔ پہلے یہ کام راز داری سے کیا جا رہا تھا لیکن اب یہ رازداری کا تکلف ختم کردیا گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی تخلیق بھی انہی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔
مائنس ون فارمولا کی ابتداءبانی پاکستان قائد اعظم کی انتہائی پراسرار حالات میں موت سےہوئی۔ پھر قائد ملت خان لیاقت علی خان کودن دیہاڑے راول پنڈی کے کمپنی باغ جسے بعد میں لیاقت باغ کانام دیا گیا میں موت کے گھاٹ اتارا گیا آج تک محسن پاکستان کے قاتلوں کا کیفر کردار تک نہ پہنچنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا قتل بھی اسی فارمولے کی بابت ہوا۔
اس قوت کی جانب سے مشرقی پاکستان کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اسے پاکستان کے وجود سے مائنس کرنے کا فیصلہ ہوا اور اسی محب وطن قوت کے اپنے بندے کی سربراہی میں انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کےبا وجود مشرقی پاکستان کو مائنس کردیا گیا، اگر غور کیا جائے تو مشرقی پاکستان مائنس نہیں ہوا بلکہ پاکستان کی محب وطن یہ قوت مائنس ہوئی،آج دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان جس نے مائنس کیے جانے کے بعد اپنا نام بنگلہ دیش رکھا آج ہمارے مکمل پاکستان کے مقابلے میں پلس جا رہا ہے اور ہم دن بدن مائنس ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور ضد کا کوئی علاج نہیں۔
1971 میں سقوط ڈھاکہ جسے سقوط پاکستان کہنا زیادہ مناسب ہوگا ان غیر معمولی حالات میں ٹوٹے پھوٹے اور زخموں سے چور چور پاکستان کو قومی کی برادری میں کھڑا کرنے اور کھویا ہوا مقام دوبارا دلانے کے لیے شب روز محنت کرنے ،اور دنیا بھر کے ممالک کے شٹل کاک کی طرح چکر لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے انہیں بھی مائنس کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اس فیصلے میں امریکی سامراج کا بھی ناقابل فراموش کردار تھا۔ لہذا بظاہر بھولے بھالے سیدھے سادھے اور شریف النفس کی شہرت کے حامل جنر ل ضیا الحق نے امریکی آشیر باد سے انہیں مائنس کردیا۔
قبل ازیں فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی قیام پاکستان کی تحریک میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے راہنماؤں کو بھی پاکستان کی سیاست سے یہ کہ کر مائنس کردیا تھا کہ یہ معاشرے اور ملک میں موجود تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔جماعت اسلامی کے امیر اور بانی مولانا سید ابوالعلی مودودی کو بھی غداری کے مقدمہ میں سزائے موت دیکر پاکستان سے مائنس کرنے کی حتی الوسعی کوشش کی گئی لیکن سعودی عرب کے حکمرانوں کی بروقت مداخلت کے باعث مولانا مودودی مائنس ہونے بچ گے۔
جنرل ضیا الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف ملک کے فوجی سربراہ بن بیٹھے تو انہوں نے اپنے رفقائے کار کی باہمی مشاورت سے بنت ذوالفقار علی بھٹو یعنی بے نظیر بھٹو کو سیاست سے کنارہ کشی کے مشورے پیغامات کی صورت میں بھیجے ۔ جب بے نظیر بھٹو نے ان مشوروں کو مسترد کردیا گیا تو غیبی قوتوں نے پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی میں سے محب وطن یعنی پیٹریاٹ تلاش کرکے ان پر مشتمل ایک گروپ تشکیل کیا۔ مقصد یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کو پیپلز پارٹی سے مائنس کیا جائے جب وہ نہ مانیں تو انہیں اس سفر پر روانہ کردیا گیا جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔
بے نظیربھٹو کو مائنس کرنے کے بعد نواز شریف پر توجہ دی گئی شہباز شریف کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا گیا لیکن شہباز شریف نے برادر اکبر جسے وہ اپنا سیاسی گرو تسلیم کرتے ہیں کے خلاف بغاوت کرنے سے انکار کردیا تو انہیں طیارہ سازش کیس میں سزائے موت سنائی گئی۔ بعدازاں مولانا مودودی کی طرح سعودی عرب نے مداخلت کرکے انہیں سلاخوں کے پیچھے سے رہائی دلائی اور سعودی عرب کی ضمانت پر انہیں جنرل مشرف نے جدہ کی راہ دکھائی۔ لیکن جنرل مشرف نواز شریف کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
پاکستان کی انتہائی محب وطن قوتوں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی عوام میں مقبول لیڈر شپ ملک میں برسراقتدار آئے کیونکہ وہ عوام کی مقبول لیڈر شپ کی موجودگی میں خود کو غیر محفوظ خیال کرتی ہیں، اور کراچی میں عوام کی مقبول و محبوب جماعت ایم کیو ایم ہے اور وہاں انکی موجودگی میں کراچی کے عوام کو نظر انداز کرنا یا کسی غیر مرئی قوت کی جامنب سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے مائنس الطاف کا منصوبہ بنایا گیا اور اس مقصد کے لیے ریاستی اداروں کو بھی استعمال کیا گیا۔ پی ایس پی کے لیے دبئی بندے بھجوانے کے لیے راؤ انوار جیسے افسران کی خدمات اور تجربہ سے مستفید نہ ہونا کوئی معقول بات نہ ہوتی۔ لہذا الطاف حسین کو مائنس کرنے کے لیے کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔
بات یہی پر رکنے والی دکھائی نہیں دیتی بات آصف علی زرداری کے مائنس ہونے تک جائے گی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn