Qalamkar Website Header Image

اپنی مدد آپ-ایک حل

salman durraniملک میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی مایوسی کا آخر کوئی تو حل ہو۔ حکومت پر تنقید ہمارا حق ہے مگر کبھی یہ سوچا کہ جن کاموں کے لیئے سالہا سال ہم نے حکومت کی طرف دیکھا، ان کاموں کا کچھ حصہ ہم خود بھی تو کر سکتے تھے۔ کم از کم وہ چھوٹے چھوٹے کام جو ہمارے ہی مفاد میں ہوں۔ یہ بات میرے ذہن میں گزشتہ ہفتے سے گھوم رہی ہے جب میں نے ڈان کے تیسرے یا چوتھے صفحے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا اشتراکی جمہوریت کے حوالے سے بیان سُنا۔
کہتے ہیں "شہریوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ووٹ دینے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے۔ جمہوری نطام میں ہر شخص کی شرکت بہت اہم ہے نہیں تو جمہوریت کی روح نامکمل رہتی ہے”۔ مجھے مودی صاحب کی یہ بات بہت پسند آئی۔ شخصیت متنازع ہے مگر بات قابل غور۔
پاکستان کے منظرنامے میں کراچی میں آجکل جوکچرے کا شور مچا ہوا ہے، یہ کام تو عوام خود بھی کر سکتے تھے۔ مگر ہمیں خود کچھ نا کرنے کی عادت ہے اور ہم عادت سے مجبور ہیں۔ ایک مثال ہے کہ پیسہ بھینک تماشہ دیکھ، ہم ووٹ پھینک اور تماشہ دیکھ والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ معاشرے کو محرومیوں اور پستیوں سے نکالنے کے لیئے عوام کو میدان میں آنا ہوگا۔اپنے اپنے علاقوں میں ایسے خود کار فارمولے لانے چاہیئں جن میں ہمارا مفاد پیوستہ ہو۔ ظاہر ہے آپ اپنے گھر کی صفائی اس لیئے کرتے ہیں کہ آپ اپنے گھر کو گندہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ اپنے محلے کی صفائی بھی اسی جذبے کے ساتھ ہونی چاہیئے۔
میں دوست کو اسلام آباد کے دیہی علاقے سوہان کی مثال پیش کر رہا تھا۔ یہ علاقہ سالہا سال سے محرومیوں اور پستیوں کا شکار ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک، سیورج کا کوئی نظام نہیں، کوڑے کے ڈھیر، پینے کے پانی کا مسئلہ، چونگی کے نام پر غنڈہ گردی جیسے بیشتر مسائل کا شکار ہے. یہ علاقہ آج بھی علاقہ مکینوں کے لیئے عذاب جان بنا ہوا ہے۔ اس سب صورتحال کے ذمہ داران کون لوگ ہیں اس کی بجائے اگر اس بات کا ذکر کر لیا جائے کہ علاقے کے وارڈ نمبر تین سے تحریک انصاف کے منتخب جنرل کونسلر نے علاقے کے لوگوں کی سوچ بدلنے کی پہل کرتے ہوئے وہاں اشتراکیت کی ایک نئی سوچ متعارف کرائی۔
انتظامی وارڈ میں اپنی مدد آپ کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے علاقہ مکینوں کے تعاون سے صفائی کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عوامی شراکت سے تاریکی میں ڈوبے اس علاقے میں جگہ جگہ سٹریٹ لائٹس بھی لگائی جا رہی ہیں۔ جمہوری نظام کے اس پہلو کو میں نے آج کا موضوع بنایا ہے جس کے تحت عوام مل جل کر اپنے مسائل کو خود ایڈرس کر سکتے ہیں۔ بات صرف اپنے مفادات کا شعور ہونے اور پہل کرنے کی ہے۔ یہ فامولہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں مایوسی اور بدحالی کو کافی حد تک قابو کرنے میں موثر ثابر ہوسکتا ہے۔
دوست کا سوال تھا کہ یہ نظام اس خطے میں نافذ العمل کیسے ہے جہاں اخلاقی اور تہذیبی قدریں پستیوں میں گر چکی ہوں۔ جھوٹ بولنا فخر کی بات ہو، بد اخلاقی قوم کا پسندیدہ مشغلہ ہو، فراڈ میں برکت سمجھی جاتی ہو۔ جواباً کہتا چلوں کہ جناب میں نے جس علاقے کی مثال پیش کی ہے وہ بھی پاکستان کا حصہ ہے وہاں بھی یہ سب کچھ پایا جاتا ہے۔ بات شعور کی ہے جس کو پھیلانے سے عوامی پیراڈائم خود بدلتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ معاشرہ جتنا مرضی بُرا کیوں نہ ہو چکا ہو اس پر کام اور محنت کرنے سے سُدھار آہی جاتا ہے اپنے مفادات کا شعور اور اخلاق سب درُست ہوجاتے ہیں۔
معاشروں کی تعمیر وترقی میں قوموں کے اخلاق بہت اہم ہوتے ہیں تو کیا ہم من حیث القوم اپنے گرے ہوئے اخلاق درُست نہیں کر سکتے؟ کہتے ہیں کہ کسی قوم کے رویوں کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی ٹریفک کا مطالعہ کرو۔ ترقی پذیر، مہذب اور متحمل قوم کہلوانے کے لیئے کیا یہ بات اہم نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی اب سے ٹریفک سگنل پر رُکنا اپنا فرض سمجھ لے؟ ہمت کریں خدا نے مایوسی کو ویسے بھی گناہ کہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس