بادل چھائے ہوئے تھے، تیز ہوا چل رہی تھی .کہیں کہیں ہلکی پھوار بھی پڑ رہی تھی جب وہ بس اس بڑے کاسموپولیٹن سٹی میں داخل ہورہی تھی –وہ تین نمبر سیٹ پہ گزشتہ اٹھارہ گھنٹوں سے بیٹھا ہوا تھا اور اسے بڑی شدت سے منزل پہ پہنچنے کا انتظار تھا- سارے راستے اس نے آنکھیں بند کئے رکھی تھیں اور وہ مختلف سوچوں میں گھرا رہا تھا –یہ وہ شہر تھا جہاں آج سے 30 سال پہلے اسے اچانک ایسا لگا تھا کہ اب اس کو اس شہر کی سڑکیں ، گلیاں اور بازار بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور جب کبھی وہ اپنے گھر سے نکلتا جو کہ ایسے علاقے میں تھا جو ایک وقت میں کلچرڈ مڈل کلاس کی بستی خیال کی جاتی تھی تو اپنے بلاک کی ہر گلی کے راستے پہ اور دائی بائیں بنے ہوئے بنگلوں کی بیل منڈھی دیواروں پہ آنکھیں اگتی نظر آتیں اور سب اس کو اپنے اوپر مرکوز لگتی تھیں- ایسے لگتا تھا کہ جیسے راستے اور دیواریں اس سے سوال کررہی ہوں کہ وہ اب تک یہاں کیوں نظر آررہا ہے- وہ اس وقت اس شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں فلسفے کا استاد تھا –ایک ایسا مضمون جس میں ادھیڑعمری کی سرحد پہ کھڑے ہوئے ایسے لوگ داخلہ لیتے جن کو کسی اور مضمون میں داخلہ نہیں ملتا تھا اور اکثر کے نزدیک یہ ٹائم پاس کرنے کا ایک مشغلہ تھا – اسے ان بوڑھے طوطوں کو پڑھانا پڑتا تھا – اکثر کلاس میں اس کے منہ میں کڑواہٹ سی گھل جاتی جب اسے کوئی بوڑھا طوطا فلسفہ پڑھتے ہوئے ابن رشد سے اپنی نفرت کا اظہار اس کے فلسفیانہ تصورات پڑھے بغیر کرتا اور غزالی کی "المنقذ من الضلال ” پڑھے بغیر ہی اس سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا –وہ اپنے اوپر قابو نہ پاسکتا اور اکثر کہتا کہ
"غزالی اگر دوسرا جنم لے اور یہاں اسے تم جیسے شاگردوں سے پالا پڑجائے اور اس جہالت کو دیکھ لے تو صدمے سے دوبارہ مر جائے-کیونکہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کی ماتھے پہ ایسی جہالت کو علم کہہ کر چسپاں کردیا جائے گا –اور ابن رشد کے تو تم قابل ہو ہی نہیں ”
وہ اس زمانے میں فلسفہ ، تاریخ اور عمرانیات کا جھنڈا بلند کرنے میں لگا ہوا تھا جب پورے ملک میں ایک فوجی آمر نے اپنے آپ کو ” امیر المومنین ” قرار دیکر ” آزاد سوچ ” رکھنے والوں کی پیٹھوں پہ کوڑے برسانے کا عمل شروع کیا ہوا تھا –اور عقل و شعور رکھنے والوں سے جیلیں بھردی گئی تھیں اور سولی یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی-یونیورسٹی کے اندر ایک لسانی تنظیم اور ایک جماعت الصالحین نے غدر مچا رکھا تھا اور اس سے باہر رہنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا-اسے اس کے خیالات کے سبب "کافر سید ” کا خطاب مل چکا تھا اور اس کا اصل نام تو شاید لوگوں کو بھول گیا تھا –اسے وائس چانسلر نے بلاکر کہا تھا کہ اسے ایک ایفی ڈیویٹ بھرنا پڑے گا جس میں اسے امیر المومنین کی اطاعت اور غیر مشروط وفاداری کا اقرار کرنا ہے-وائس چانسلر نے کہا کہ یہ معمول کی کاروائی ہوگی –لیکن اس نے ذرا غصّے سے کہا تھا کہ
"یہ آپ کو نارمل لگتی ہے –یہ انتہا کی ابنارمل صورت حال ہے جس سے وہ مطابقت نہیں کرسکتا”
انکار کے بعد اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگيا- صالحین کی تنظیم اور لسانی شاؤنزم سے سرشار تنظیم کے فسطائی غنڈوں نے ایک دن کلاس میں گھس کر اس کے منہ پہ کالی سیاہی پھینک دی اور اس نے دیکھا بوڑھے طوطوں میں کئی ایک کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی اور جو اس سے ہمدردی رکھتے تھے اس نے ان کو خوف اور غصّے کی شدت سے ڈیسک پہ بیٹھے کانپتے دیکھا-اس نے اپنے چہرے پہ گری سیاہی کو صاف کئے بغیر کلاس کو لیکچر دینا جاری رکھا – اس روز وہ ایپی کیورس کے بارے بتارہا تھا جس نے کہا تھا کہ
"خوش رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے ”
اس موقعہ پہ اسے بے اختیار ہنسی بھی آئی کہ ایسے بیمار ماحول میں وہ ایپی کیورس کے فلسفہ نشاط کی روح بوڑھے طوطوں کو کیسے پڑھائے جو سمجھنے کی چیز کو بھی رٹالگاکر یاد کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے –ایک شام جب یونیورسٹی سے نکل کر وہ اپنے گھر جانے والی شٹل کاک میں بیٹھنے والا تھا تو موٹر بائیک پہ نجانے کہاں سے دو موٹر سائیکل سوار نمودار ہوئے جنھوں نے نقاب چڑھائے ہوئے تھے –پیچھے بیٹھے نقاب پوش نے پینٹ کی سائیڈ سے پسٹل نکالی اور اس کی ٹانگوں کا نشانہ لیکر ٹریگر دباڈالا اور یک بعد دیکرے چھے گولیاں اس کی ٹانگ میں پیوست ہوگئیں اور وہ وہاں گرپڑا –خون میں لت پت –کوئی اٹھانے والا نہیں تھا –اتنے میں اس کی ایک کولیگ نے آگے بڑھ کر جب اسے اٹھانے کی کوشش کی تو تماشائی بنے کچھ لوگوں کو شرم آئی اور اس کے ساتھ ملکر اسے اس کولیگ کی گاڑی میں ڈالا گیا –اور وہ اسے ہسپتال لائی تو ایمرجنسی میں کسی ڈاکٹر نے اسے اس وقت تک دیکھنے کی حامی نہیں بھری جب تک پولیس نہ آئی –وہ بہت سخت جان تھا –یہ سب جھیل گیا –مگر صحت یاب ہونے کے بعد اس نے یونیورسٹی جانے کی بجائے اپنا استعفا وائس چانسلر کو ارسال کیا – وہ تو جیسے اس کے منتظر تھے فوری قبول کرلیا گیا –اور اس نے اپنے گھر کے اندر اپنے ریڈنگ روم میں خود کو قید کرلیا-وہاں اس کے پاس وہی کولیگ روزانہ آتی تھی اور دونوں کے درمیان غیر محسوس طریقے سے وہ جذبہ بیدار ہوگیا تھا جس کی بیداری پہ دن اور رات کتنے ہی بے کیف ہوں پرکیف لگنے لگتے ہیں –اسے اپنی کولیگ میں ہی سارا جہان چھپا لگنے لگا تھا –ایسے میں ایک دن وہ آیا جب اس کی کولیگ کی اس کے اپنے خون میں لت پت لاش اس نے ہسپتال میں سٹریچر پہ دیکھی اور اس کا وہیں نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا –چار سال وہ اپنے آپ سے اور ساری دنیا سے بیگانہ ہوگیا –ڈاؤ میڈیکل کالج کے ایک ہیپی گروپ کے ساتھ ملکر اس نے ادویات کے آمیزوں سے نت نئے نشوں کا زہر اپنے معدے کے زریعے سے خون میں شامل کیا اور انجیکشن کی سوئی سے اپنی رگوں میں مسکن زہر اپنی رگوں میں داخل کیا-اور پھر اسے منگھو پیر کے دربار پہ قلندریوں کا ٹولہ ٹکر گیا اور وہ حشیش اور بھنگ کا اسیر ہوگیا اور اس نے کئی تکیوں ، درگاہوں اور درباروں کا سفر کیا جہاں اسے ایسے درویش بھی ملے جو امرد کے ساتھ اپنی دل لگی کو عشق حقیقی تک پہنچنے کا مسکت زریعہ خیال کرتے تھے –اگرچہ اس دور میں ایسے تکیے اور دربار کم ہوتے جاتے تھے جہاں قلندر ، درویش ،مست ملنگ اور مجذوب آزادی سے اپنے شغل کرسکتے تھے کیونکہ اس زمانے میں صوفی واد بھی مولویوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا اور اس کا کاسموپولٹن شہر بھی بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا-ہر شخص بہت تیزی سے اپنی زبان اور اپنے فرقے کے حوالے سے تعصبات سے بھری ایک نئی شناخت اپنا رہا تھا اور اسے پورا شہر اسی لئے اجنبی لگنے لگا تھا-یہ اس کی وارفتگی و مستی کے سال تھے-اسے شیزوفینک صوفی ، قلندر ، مست ملنگ بہت اچھے لگتے تھے جن کے ہاں کوئی تعصب جگہ نہیں پاتا تھا اور سب زمین سے لگے تھے –اور اس سے کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ، اس کا نام کیا ہے ؟ کرتا کیا ہے ؟ بس انھیں اس سے غرض تھی کہ ان کے ساتھ سبز سیال پیتا ہے کہ نہیں اور چرس و گانجے کے دھویں میں ان کے ساتھ پرواز کرتا ہے کہ نہیں –یہاں سچل سرمست ، شاہ لطیف ، سترام دھام ، لعل شہباز قلندر ، بلھّے شاہ ، شاہ حسین ، گرو نانک ، کبیر ، میرا بائی ، خواجہ فرید کے اشعار کا جھرمٹ ہوتا ، دھمال ہوتی اور اس دھمال میں اسے سارا جہاں رقص میں لگتا تھا اور اسے لگتا کہ سٹریچر پہ پڑی اس کی کولیگ لہو رنگ کی رنگینی کے ساتھ اٹھ بیٹھتی تھی اور کھڑے ہوکر اس کے ساتھ ناچنے لگتی تھی –اور وہ دوران رقص اس سے اس کے قاتلوں کا پتہ پوچھنے کی کوشش کرتا تو وہ اپنی انگلی اس کے ہونٹوں پہ رکھ دیتی اور اسے چپ رہنے کا اشارہ کرتی –گویا کہہ رہی ہو
ایہہ چپ دی جاہ اے الا کوئی نہیں سکدا
اور اس کے من میں جیسے مردہ شانتی سی بھرجاتی تھی-وہ مہینوں مہینوں گھر نہ آتا تھا اور جب گھر آتا تو اس کی حالت دیکھ کر ” بھائی کے حق پرست ” اسے باؤلا قرار دیکر حلف وفاداری سے معذور خیال کرکے چلے جاتے تھے –پھر ایک دن جب اس کے گھر کے عین سامنے ایک نوجوان کی بوری بند لاش ملی تو اس پہ نجانے کیا کیفیت وارد ہوئی اس نے اپنی شیو بنائی اور کئی سالوں سے بڑھی ہوئی بالوں کی ساری لٹیں کٹوا ڈالیں اور بہت عرصے بعد اس نے بلیو جینز اور اس پہ ململ کا کرتہ ڈالا اور ایک الماری سے اپنا پاسپورٹ نکالا اور اپنی تعلیمی اسناد اٹھائیں اور ایک ملک کے قونصل خانے پہنچ گیا-وہاں گیٹ پہ اسے ایک عورت مل گئی جس نے اس سے قونصل خانے آنے کا مقصد پوچھا تو نجانے کیوں یہ پوچھ تاچھ بری لگی اور اس نے اس عورت کو کوئی جواب نہ دیا-رسیپشن سے اس نے قونصلر سے ملنے کی خواہش کی تو ریسپشنسٹ نے فون اٹھاکر اندر کسی سے بات کی اور پھر اسے ایک کمرے کی جانب اشارہ کیا-وہ دروازہ کھول کر اندر گیا تو اس نے جسے سامنے بطور قونصلر بیٹھا دیکھا تو گڑبڑا گیا – وہی عورت سامنے براجمان تھی جو اسے گیٹ پہ ملی تھی اور اسے آنے کا مقصد دریافت کیا تھا اور اس نے جواب تک نہ دیا تھا – اس کے ہونٹوں پہ ایک شریر سے مسکراہٹ تھی –اس نے بڑی شستہ اردو میں اس سے پوچھا –
اب تو آپ اپنے آنے کا مقصد بیان کریں گے نا ؟
سوری ۔۔۔۔۔
اس نے آگے کچھ کہنا چاہا تو عورت نے فوری طور پہ اسے کچھ کہنے سے روکتے ہوئے کہا
اٹس اوکے مسٹر ،،،،،،،،،،،،
میں دراصل وی میں سیاسی پناہ چاہتا ہوں –
کیوں ؟
میں یہاں بہت گھٹن محسوس کرتا ہوں –فکری حبس بہت ہے یہاں –میں تو جیسے جینا چاہتا ہوں ویسے جی نہیں سکتا –اپنی آزادی کی خاطر یونیورسٹی سے نکال باہر کیا گیا –
اس نے ایک سانس میں اسے اپنی روداد سنادی –
آپ ایسا کیجئے اپنے نوکری سے نکالے جانے کی کہانی درخواست کے اندرذکر کردیں –بیشک یہیں بیٹھ کر لکھ لیں –
قونصلر عورت بہت نرم خو ثابت ہوئی اور اس کی آنکھوں کے تاثرات بتاتے تھے کہ اس کی روداد نے اسے متاثر کیا تھا-اس نے اپنی درخواست لکھی ساتھ ضروری دستاویزات لف کیں اور قونصلر کے حوالے کرڈالے-پھر ایک ہفتے کے اندر اندر اسے "وی ” کا ویزا مل گیا اور اس نے سامان باندھا اور ایک فلائٹ سے وہ وی پہنچ گیا-مائنس 12 سینٹی گریڈ کی سردی نے اس کا استقبال کیا تھا-اس نے ایک بار سے قوزق ووڈکا کی آدھی بوتل نیٹ اپنے اندر اتار لی تھی جب جاکے اس کے دانت بجنا بند ہوئے تھے اور اس کے جسم کی کپکپی قابو میں آئی تھی-یہ اس کے خوابوں کا شہر تھا- لیکن یہاں کی تیز اور بے رحم زندگی کا اسے قطعی اندازہ نہ تھا –یہاں کی زبان سے وہ واقف نہ تھا –اس بنیاد پہ اسے کسی یونیورسٹی نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا-اور جو رقم اس نے گھر سے ساتھ لی تھی وہ تیزی سے خرچ ہونا شروع ہورہی تھی –ایسے میں اسے شکنتلا ملی ایک سب وے میں جب وہ ٹرین پکڑ کر دوسرے اسٹیشن جانے کی تیاری کررہا تھا تاکہ وہاں سے تھوڑے فاصلے پہ بنی ایک کار ورکشاپ کے اندر رات گزار سکے-اس ورکشاپ میں وہ رات گزارتا تھا اور بدلے میں کچھ پیسے دیتا تھا –شکنتلا ممبئی کی رہنے والی تھی اور یہاں ایک نیوز ایجنسی چلارہی تھی-اس نے جب اس کی بے کاری کی داستان سنی تو اسے ” ہاکر ” کی نوکری کی پیشکش کی جو اس نے فوری قبول کرلی –کیونکہ جس اخبار کی کاپیاں اس نے تقسیم کرنی تھیں وہ اس کا پسندیدہ اخبار تھا اگرچہ اس نے اسے کبھی پڑھا بھی نہیں تھا –شکنتلا نے اسے ایک بائی سائیکل دے ڈالی اور وہ ورکشاپ سے شکنتلا کے نیوز ایجنسی آفس میں منتقل ہوگیا -جہاں صبح سویرے اخبار کے بنڈل پہنج جاتے تھے جن کو وہ سائیکل پہ وہ قرب و جوار میں تقسیم کرتا تھا –اخبار تقسیم کرتے کرتے اسے ایک بار جہاں وہ روزانہ اخبار دینے جاتا تھا بار اٹینڈنٹ کی جاب کی آفر ہوئی تو اس نے اسے قبول کرلیا-اور اس طرح سے صبح اخبار تقسیم کرتا –دوپہر وہ لینگویج کلاسز لیتا اور سر شام بار پہنچتا اور رندوں میں جام تقسیم کرتا تھا –اسے اس جدید صنعتی شہر میں یہ بار روم کبھی کبھی اردو ، فارسی اور عربی شاعروں کے شعروں میں ذکر کئے گئے مئے خانوں سے مشابہہ لگتے اور وہ تخیل کے زور پہ قرون وسطی کے بغداد و اصفہان کے مئے خانوں کو اس بار میں گھسیٹ لیتا تھا –اور اس کے لبوں پہ بے اختیار رومی کا یہ شعر آجاتا تھا ۔۔۔۔۔
یک دست جامِ باده و یک دست جعدِ یار
رقصی چنین میانهٔ میدانم آرزوست
جلد ہی وہ وہاں کی زبان سیکھ گیا اور پھر ایک دن اس نے اپنے محبوب اخبار میں پڑھا کہ اس کے انگریزی اور اردو سیکشن کے لئے سب ایڈیٹر کی ضرورت تھی تو اس نے وہاں پہ اپلائی کردیا –اسے جلد کال لیٹر آگیا –اور انٹرویو اس نے دیا اور کچھ روز بعد اسے اپائنمنٹ لیٹر مل گیا –اور وہ اس اخبار کے دفتر میں سب ایڈیٹر ہوگیا جس کو اس نے اپنے انقلابی دوستوں کے ہاں مجسم نما دیکھا کہ بات بے بات اس کا نام سامنے آجاتا تھا-اور اس نے تندہی سے اردو اور انگریزی سے خبریں ، فیچر ، مضامین کو وہاں کی زبان میں ڈھالنا شروع کردیا –اخبار میں مترجم کے طور پہ اس کا نام چھپتا تھا – اسے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا –اس نے اپنے آپ کو کام مین غرق کرلیا تھا – جس گروپ کے تحت اس کا محبوب اخبار چھپتا تھا اسی نے اسے اپنے ایک ریڈیو میں بطور صدا کار کام کرنے کی پیشکش کردی تو اس نے اسے بھی قبول کرلیا –اور دن رات وہ بس سب ایڈیٹنگ اور ریڈیو پہ صداکاری کرتا رہا –اور جو فارغ وقت بچتا تھا وہ ووڈکا و وائن پینے میں گزرجاتا تھا –لیکن علی الصبح وہ اب بھی اپنے محبوب اخبار کو تقسیم کرنے کی نوکری جاری رکھے ہوئے تھا-شکنتلا اس کی اس ادا پہ حیران تھی –ایک دن باتوں باتوں میں اسے پتہ چلا کہ وہ فلسفے میں پی ایچ ڈی ہے تو اس نے اس سے نجانے کیوں معذرت شروع کردی اور تم سے آپ پہ آگئی –اسے اس بدلاؤ سے کوئی غرض نہ تھی –وہ تو بس اپنے اندر سلگتی آگ کو کام کی ریت سے بجھانے میں لگا تھا جو بجھنے کا نام نہیں لیتی تھی –جس شہر میں وہ ایک پناہ گزین کے طور پہ زندگی بسر کررہا تھا وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیوں کا شہر تھا –جامعات ، کالجز ، کام کی جگہیں ، بار ، ڈسکو کلبز سب جگہ نوجوان لڑکے لڑکیاں زیادہ نظر آتی تھیں اور پختہ عمر کی عورتیں و مرد بھی اسے کام اور تفریح دونوں جگہوں پہ مست مست نظر آتے تھے –ایک دن اسے ایک عورت نے بار روم میں نشے سے لڑاکھڑاتے ہوئے کہا تھا کہ
"کام کی جگہ ہو یا پینے کی یا رقص کی وہاں جو مستی و رندی تمہیں نظر آتی ہے یہ سب اس بورڈم سے فرار کی کوشش ہے جو لایعنیت کی کہر سے جنم لیکر دماغ سے ہڈیوں تک میں سرایت کرتے دیر نہیں لگاتی ہے-اور اندر تشنگی یہاں ہر کسی کی بہت زیادہ ہے جو تم سے اجنبی کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے – یہ برھا سے اٹا قدیم شہر ہے جہاں اندر وارد ہونے والی موت کے عذاب سے بچنے کے لئے دوستوں کی تلاش آب حیات تلاش کرنے سے کم نہیں ہے ”
اس نے اس عورت کی یہ بات سنی تو اسے اپنے ملک کا وہ مست و الست شاعر یاد آیا تھا جو نارنگی کے اندر سارا جہان دیکھنے میں لگا ہوا تھا –ایک دن جس نے دریائے چناب کے ویسٹ بینک پہ بنے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے ویران پلیٹ فارم پہ دسمبر کی ایک رات اسے دو اشعار سرائيکی میں سنائے تھے جس کا مفہوم وہی تھا جو اس عورت نے کہا تھا –وہ سوچنے لگا تھا کہ کیا سارے قدیم شہروں کی قسمت "برھا ” ہوا کرتی ہے ؟کیا مشینوں کی اجارہ داری بھی اسے کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی- پرانے قتلام کیوں برھا میں بدل جایا کرتے ہیں ؟ اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لئے دوستزں کی تلاش کا سفر کیوں تمام نہیں ہوتا ؟
ایک رات جب وہ مئے خانے سے لوٹ رہا تھا اور اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے تو ایک گلی سے گزرتے ہوئے اچانک ایک فلیٹ کا دروازہ کھلا اور ایک عورت نے نکل کر اس کا ہاتھ تھام لیا – وہ بھی زرا مخمور سی لگتی تھی –اسے کہنے لگی کہ اتنی سردی میں کہاں جاتے ہو ؟اور نجانے کیسے وہ اس کے کھینچنے پہ چلتا چلا گیا-اندر داخل ہوا تو یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ سامنے ایک چوکی ٹائپ چیز پہ بڑا سا سیفو کا مجسمہ پڑا تھا – وہ اس یونانی شاعرہ کا وہاں مجسمہ دیکھکر تھوڑا حیران ہوا –اس کی آنکھوں میں حیرت دیکھکر وہ عورت مسکرانے لگی اور کہا ۔۔۔۔۔ ” یہ مری دیوی ہے اور مری عقیدتوں کا مرکز ” اور اس شہر میں مجھ جیسی کئی عورتیں ہیں جو سیفو کا مجسمہ برکت کے لئے اپنے گھروں میں رکھتی ہیں اگرچہ مجھ سمیت ایسی ساری عورتیں ناستک ہیں –
تو اکڑ ناستک ہیں تو پھر یہ برکت کے ليے سیفو کا مجسمہ یہاں کیوں ہے ؟
اس کے منہ سے بے اختیار سوال نکل گیا
پتہ نہیں ۔۔۔۔۔
اس عورت نے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی کہنے لگی
کیا تم ناستک نہیں ہو ؟
ہاں ہوں
اس نے کہا
تم زرا یہ بتاؤ کہ مارکس کی جینی سے محبت اور پھر اس کے مرنے کا روگ پال کر اک دن خاموشی سے آرم چئیر پہ ہی گزرجانے کی کس مادیت پرستانہ خیال سے تشریح کروگے اور یہ لینن کا ساری زندگی کروپسکایا کے ساتھ وفادار رہنا کس مادی جذبے کا عکس تھا؟
وہ تھوڑا سا سٹپٹایا – اس نے کبھی ان کو دیکھا نہیں تھا –
پھر اس نے اچانک سر جھٹک کر کہا
معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اس پہ وہ عورت کھلکھلا کر ہنسنے لگی –
ہم کہیں نا کہیں بہت ناستک ہوتے ہوئے بھی مابعدالطبعیاتی ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی چپکے سے کوئی مجسمہ ہمارے گھر میں آجاتا ہے تو کہيں کوئی شبیہ ، کوئی تصویر ، کوئی علامت ہمارے ڈرائنگ روم میں اپنی جگہ بنالیتی ہے –کوئی دھاگہ ہماری کلائی سے لپٹ جاتا ہے-اور پھر اس نے اسے گھسیٹ کر اپنے قریب کرلیا اور اس کے بعد بس تیز سانسوں کی سرگوشیاں ہی کمرے میں سفر کرتی رہی تھیں –
ایکسیوز می سر ،،،، منزل آگئی ، بس ٹرمینل پہ آگئی ہے – سب مسافر اتر چکے ، آپ نے چلنا نہیں کیا ؟
بس ہوسٹس نے ا کے پاس آکر زرا بلند آواز میں کہا تو وہ ایک جھٹکے سے خیالوں سے واپس آگیا –
اس نے اوپر بنے ریک سے اپنا بیگ اٹھایا اور بس سے نیچے اتر گیا –ٹرمینل کاسمو پولیٹن شہر کے آخری سرے پہ بنی ایک مشہور ندی کے قریب بنایا گیا تھا-جب وہ اس شہر میں تھا تو اس وقت اس علاقے میں کھیت ہی کھیت تھے اور آج یہاں بلند وبالا عمارتیں بن گئی تھیں –کئی بس کمپنیوں کے اڈے یہاں قائم ہوگئے تھے-اور لوگوں کا ایک اژدھام تھا –ٹریفک کا سیلاب تھا –ایک آپا دھاپی تھی جس کو کس نے ٹرمینل کے خارجی دروازے پہ کھڑے ایک نظر میں تاڑ لیا تھا-اب وہ تھوڑا سا حیران اور زیادہ الجھن زدہ تھا –اچانک اسے ایسا لگا کہ وہ کسی اجنبی شہر میں آگیا ہے-اس نے اپنے موبائل سے گوگول میپ کھول کر شاہراہ ف پہ اپنا مطلوبہ ہوٹل تلاش کیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارے سے بلایا اور راستہ سمجھایا اور ٹیکسی میں سوار ہوگیا –ٹیکسی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی –شہر بہت بدل گیا تھا- بہت ٹوٹ پھوٹ تھی اور بے ہنگم ٹریفک تھی –یہ روشنیوں کا شہر تو کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا-دیواریں اسے ایسے نعروں سے رنگی نظر آتی تھیں جو اس شہر کی فضا کے مسموم ہوجانے کی نشاندہی کررہی تھیں –کئی ایک جگہ لکھا تھا
” گ کی ایک ہی سزا – سر تن سے جدا ،سر تن سے جدا ”
” کافر کافر – ش ،کافر ”
” اح دنیا کا بدترین مر-د ہے – گولی کا حقدار ہے ”
اس نے آنکھیں بند کرلیں – اس کا سر پھٹنے کو ہوگیا تھا – اسے لگا کہ شہر کی جس یونیورسٹی میں پھیل جانے والی تاریکی کے خلاف اس نے احتجاج میں استعفا دیا تھا وہ تاریکی تو اس شہر کے ہر کونے کھدرے تک پہنچ گئی تھی اور سب اس پہ مطمئن بھی نظر آتے تھے –اتنے میں اس کا مطلوبہ ہوٹل آگیا – اس نے ٹیکسی والے کو کرایہ ادا کیا اور ہوٹل کے ریسپشن پہ پہنچ کر اپنے کمرے بارے میں پوچھا –دوسرے فلور پہ 112 روم اس کے لئے مختص تھا-وہ ہوٹل میں جاتے ہی سوگیا تھا –کافی دیر میں سوکر اٹھا تو اس نے موبائل فون کا لاگ چیک کیا تو پتہ چلا کہ ریب اسے کافی بار فون کرچکی تھی اور انباکس میں کئی میسج آئے ہوئے تھے-اس نے بیک رنگ کیا –ریب نے فوری کال پک کی –
سوئے ہوئے محل کیا پروگرام ہے ؟
ویلکم ٹو یو ان یور اولڈ ڈریم سٹی
تم بتاؤنا ،،،
آج آرام کرو ، کل تمہارے ساتھ ایک گیٹ ٹو گیدڑ ہے اور دیٹ از سرپرائز فار یو –
ریب نے اس سے کہا
ریب اس کی یونیورسٹی فیلو تھی –تازہ تازہ آزاد ہوئی تھی (یہ جملہ خود ریب نے بولا تھا جب اس نے اسے بتایا کہ اس نے طلاق لے لی ہے ) – پچاس سال کی ہوئی ریب کا سابق شوہر اس کو آج بھی پیپ آؤٹ کرنے سے باز نہیں آتا تھا – اس کے قبر میں پیر لٹکائے انکل نے اس کی سوشل زندگی کو جہنم کی طرف جانے کا راستہ قرار دیا تھا –20 سال سے دونوں الگ الگ رہتے تھے اور اب وہ اپنے شکّی شوہر سے آزاد ہوگئی تھی-وہ سوچ رہا تھا کہ ریب جو فلسفے میں چند ایک چمکتے ستاروں میں سے تھی اور جس کی فلسفیانہ سوچ کی پرواز سب کو حیران کرڈالتی تھی-اور پھر وہ حیران رہ گيا تھا جب وہ پی ایچ ڈی کئے بغیر یونیورسٹی چھوڑ گئی تھی اور اس کی شادی کی خبر ملی اور پھر ایک لمبے عرصے تک اس کی کوئی خبر نہ ملی –ایک دن جب وہ کسی کام سے وی کے ائرپورٹ پہ آیا تو ایگزٹ سے ریب کو نکلتے دیکھ کر رہ خوشی سے اچھل پڑا تھا –ریب اسے بہت تپاک سے ملی اور وہیں اس نے اپنی رام کہانی سنائی تھی –آج وہ اسی کی تحریک پہ واپس اپنے کاسموپولٹن شہر واپس لوٹا تھا-اس نے ڈنر کمرے میں ہی منگوایا اور اس کے بعد چہل قدمی کرنے کی غرض سے باہر آگیا – رات ہوچکی تھی –اس نے سامنے سڑک کے فٹ پاتھ پہ دیکھا کہ ہر دوسری تیسری لڑکی حجاب میں تھی – یہ زرا نیا رجحان تھا اس شہر ميں –
شکست توبہ کا کب ایسا آئے گا موسم – عدم کو گھیر کے لاؤ بہار کے دن ہیں
اسے لگتا تھا کہ اب اس شہر میں شکست توبہ کا موسم نہیں آنے والا –
اگلی صبح ریب آگئی –گاڑی ڈرائیو وہ خود کررہی تھی – گاڑی اس کے جانے پہچانے راستوں سے ہوتی ہوئی ایک بڑے شاپنگ مال کے اندر داخل ہوئی اور پارکنگ میں کار کو کھڑی کرکے ریب اسے اس مال میں بنے ایک کافی بار میں داخل ہوگئی اور اس تب اس نے سامنے میز پہ بیٹھے ان چہروں کو دیکھا جن کو دیکھے کئی سال ہوگئے تھے –اور سب اس کی جانب والہانہ بڑھے –
سناؤ بھئی ! وی جیسے مقام پہ سنا ہے خوب مزے کئے تم نے ؟ تمہیں ظالم ہمیں بھی یاد نہ آئے –
"را ” نے اسے کہنی سے ٹوکے دیتے ہوئے سوال کیا
وہ کیا جواب دیتا – بس الجھے تاثرات سے ان کو دیکھتا رہا –
اس نے جب ان سے بات چیت شروع کی اور شہر میں ہوئی وال چاکنگ بارے پوچھا تو ان میں سے دو ایک نے اس کی جسٹی فیکشن پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ ایک دو نے اس کی مذمت کی اور اسے اس تقسیم شدہ رائے پہ حیرت ہوئی اور وہ وہاں سے جلدی اٹھ گیا – ریب معاملہ سمجھ گئی تھی –اور اس کے ساتھ ہی باہر نکل آئی تھی –ریب کے ساتھ وہ ہوٹل واپس آیا –دونوں کمرے میں بیٹھے تھے تو ریب نے اسے خبردار کیا –
دیکھو! جس شہر کو تم نے آج سے کئی سال پہلے چھوڑا تھا –یہ وہ شہر بالکل بھی نہیں ہے-میں حیران تھی کہ وی کے سب سے بڑے اخبار میں کام کرنے کے باوجود تمہیں کچھ خبر نہیں کہ وہاں دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے اور پاکستان میں تمہارے اپنے شہر میں کون سی قیامت ہے جو نہیں ٹوٹی اور یہ شہر اب اظہار کرنے پہ قتل تو بہت پرانا کرتا ہے لیکن فقط نام کی مماثلت پہ بھی آپ قتل کرديے جاتے ہو اور اس پہ رونا دھونا اس کے اپنے ہی لوگوں نے ہوتا ہے –دوسرے غم ظاہر کرنے سے پہلے مقتول کی مذہبی و نسلی شناخت کی تسلی اچھی طرح کرلیتے ہیں –اور کچھ تو یونہی سر راہ مرجاتے ہیں – اور تم یہاں اپنی آزاد روح کو قید اور لبوں کو کچھ معاملات پہ سی نہیں لوگے تو تمہاری سانس کا رشتہ منقطع کرنے کے لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے –شہر کو گھوم پھر کے دیکھو ، مرے ساتھ شام کو ساحل پہ چلنا –
وہ بولے گئی اور وہ سنتا رہا-پھر وہ چلی گئی – اس کے جاتے ہی نجانے کس آواز نے اسے جکڑا اس نے بیگ کو لاک کیا اور رسیپشن پہ آگے اپنے چیک آؤٹ ہونے کی اطلاع دی اور ائرپورٹ چلنے کو کہا –کاؤنٹر پہ اس نے چانس پہ وی کی ایک ٹکٹ پالی اور تھوڑی دیر بعد وہ جہاز پہ بیٹھا واپس جارہا تھا – کا سموپولٹن شہر بتدریج تاریکی میں دور سے دور ہوتا جارہا تھا –
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn