پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے تسلسل میں چوبیس ہزاز سے زائد شیعہ قتل ہوئے ہیں، لاتعداد ملک چھوڑ گئے۔ قتل ہونے والوں میں عام شہری، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز اور معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔ مشہور و معروف شخصیات کے چہرے سب کو ہی یاد ہوتے ہیں اس لئے جونہی ان کا نام لیا جاتا ہے، ذہن میں فورا اُن کا چہرہ ابھر آتا ہے۔ ڈاکٹر علی حیدر، پروفیسر سبطِ جعفر، پروفیسر تقی ہادی نقوی، عون محمد رضوی، علامہ ناصر عباس، محسن نقوی، خرم ذکی وغیرہ۔ ان سب کے چہرے ہم سب کو یاد ہیں۔ جن کے قریبی عزیز اس نسل کشی کا شکار ہوئے، بلاشبہ اُنہیں بھی اپنے پیاروں کے چہرے کبھی نہ بھولیں گے۔ باپ کو بیٹے کا چہرہ، بیٹے یا بیٹی کا باپ کا چہرہ، بیوی کو شوہر کا، بہن کو بھائی کا، دوست کو دوست کا اور بھائی کو بھائی کا۔
مجھے بھی اُن تمام مشہور شخصیات کے چہرے یاد ہیں جو اس نسل کشی کی نذر ہوئے۔ جو قریبی عزیز مارے گئے، اُن کے چہرے بھی یاد ہیں۔ لیکن ظاہر ہے، قتل ہونے والے چوبیس ہزار سے زائد شیعوں میں سے کس کس کا چہرہ ہمیں یاد ہوگاْ؟ شاید چند ایک کا۔ مثلا کراچی کی چھ ماہ کی معصوم بتول کا نام پڑھتے ہی اُس کا چہرہ ذہن میں آجاتا ہے، یا ڈی آئی خان کے ایڈوکیٹ شاہد شیرازی کا چہرہ بھی مجھے یاد ہے، شاید اس لئے کہ اُن کا ذکر تواتر سے ہوتا رہا ہے۔ اور ہاں، پارہ چنار کی سبزی منڈی میں زمین پر گری ہوئی سبزیاں چننے والے بچے کی شکل بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے جسے پچھلے برس اُس کی ماں نے نیند سے جگا کر سبزی منڈی بھیجا تھا، زمین پر گری سبزیاں چننے کیلئے لیکن نہیں جانتی تھی کہ اس روز وہ ہمیشہ کیلئے سو جائے گا۔ مجھے محضر زہرا کا چہرہ بھی یاد ہے جو اب وہیل چئیر پر بیٹھتی ہے، جس کا باپ اُسے سکول چھوڑنے گیا تھا لیکن تکفیری دہشتگردوں کی وجہ سے دنیا چھوڑ گیا، محضر زہرا کے سامنے۔ انٹر نیٹ پر موجود دو معصوم ہزارہ بچیوں کی تصویر بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے جن میں نے ایک آنکھیں بند کیے، ہاتھوں میں تصویر تھامے رورہی ہے اور دوسری بچی اُسے دیکھ کر رو رہی ہے۔
اوپر میں نے جو کچھ لکھا، یہ سب کچھ میرے ذہن میں اور یقینا آپ سب کے ذہن میں اس لئے محفوظ ہوگا کیوں کہ ان سب کا ذکر زیادہ ہوتا رہا، کچھ تصویریں ہم بار بار دیکھتے رہے اور معروف شخصیات کے چہرے تو ہمیں یاد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پچھلے برس مستونگ میں چار دیگر ہزارہ شیعہ کے ساتھ قتل ہونے والے جواں سال محمد مرتضی ہزارہ کا چہرہ کیوں میرے ذہن سے نہیں مٹ پایا؟ وہ تصویر جس میں اُس کا بے ضرر چہرہ اور معصوم مسکراہٹ دکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے یہ میرا بہت قریبی عزیز ہو۔ اُسے دیکھ کر مجھے کسی مرکزی مجلس میں مولانا کے منبر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے سکاوٹ کے وہ کم سن نوجوان یاد آرہے تھے جنہیں دیکھ کر معلوم نہیں کیوں بے اختیار رونے کو جی چاہتا تھا۔ کبھی مجھے مرتضی اپنے چھوٹے بھائی جیسا لگتا تھا۔
مرتضی کراچی میں گرافک ڈئیزایننگ پڑھ رہا تھا اور اُس کے بعد لاہور میں این سی اے میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ وہ جب چھٹیوں پر کراچی سے کوئٹہ آتا تھا تو بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ اُس کے والد نے اپنی معمولی سرکاری ملازمت کے جی پی فنڈ کی رقم اس ارادے سے بچا رکھی تھی کہ بیٹے کو لاہور این سی اے میں داخلہ دلواوں گا لیکن سب کچھ بس ایک سوال پر ختم ہوگیا: "میرے بیٹے کا کیا قصور تھا جو اُسے اٹھارہ گولیاں ماری گئیں؟” گزشتہ برس مردان میں مشال خان کو ہجوم پرستوں نے بیدردی سے قتل کردیا تھا۔ پورے پاکستان نے اس سفاکیت کے خلاف آواز اُٹھائی تھی، ماسوائے چند ہجوم پرستوں اور اُن کے وکیلوں کے۔ سوشل میڈیا پر مشال خان کے سامان کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ اُس کی ماں مشال خان کے کپڑے چوم کر رورہی تھی اور باپ اُس کے بٹوے سے ملنے والے چند روپے گنتے ہوئے رو رہا تھا شاید دو سو ستر روپے تھے۔
ایسی ہی ایک تصویر مرتضی کے سامان کی بھی تھی۔ ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا جس میں اُس کے کپڑے، چند کتابیں اور سب سے اوپر ایک جائے نماز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ لیکن چند ایک کو چھوڑ کر کسی کو یہ سامان دیکھ کر کرب محسوس نہ ہوا۔ مرتضی کو اٹھارہ گولیاں ماری گئیں لیکن پاکستانیوں کی اکثریت سر جھٹک کر گزر گئی۔ مشال خان اور مرتضی ہزارہ میں کیا فرق تھا؟ ایک تصویر تھی مرتضی کے باپ کی، جس میں وہ آستین پر مرتضی کے خون کے دھبوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ برابر میں ایک بوڑھا ہزارہ شخص بھی سر جھکائے بیٹھا تھا، جیسے تعزیت کیلئے مناسب لفظ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ گزشتہ برس سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا مہینہ گزرا ہو جس میں بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ میں کوئی شیعہ ہزارہ قتل نہ ہوا ہو۔ میں سوچا کرتا تھا کہ میں مرتضی کی پہلی برسی پر اُس کے بارے میں اپنے جذبات ایک بار پھر لکھوں گا۔ بدترین نسل کشی کا شکار اس برادری سے تعلق رکھنے والا مرتضی ہزارہ، مجھے اس پوری برادری کی مظلومیت کی اکیلا عکاسی کرتا نظر آتا تھا۔ معصوم چہرہ، پڑھنے کا شوقین، گرافک ڈئیزانر، این سی اے میں پڑھنے کا خواہشمند اور ۱۸ گولیاں۔
لیکن آج میں ںے فیصلہ کیا کہ میں مرتضی کی برسی کا انتظار نہیں کروں گا بلکہ مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہزارہ شیعہ برادری کی مظلومیت کی عکاسی محمد مرتضی ہزارہ کے ذرئعے کرنے کی کوشش کروں گا۔ شاید اُس کے معصوم اور بے ضرر چہرے کو دیکھ کر، اُس چھوٹے سے سوٹ کیس کو دیکھ کر جس میں سلیقے سے سامان رکھا گیا تھا یا اُس کے باپ کی تصویر دیکھ کر کسی کو ہزارہ شیعہ برادری کا خیال آجائے جو بس یہ جاننا چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے کو ۱۸ گولیاں کیوں ماری گئیں؟
انسان دردِ دل رکھتا ہو اور تھوڑا سا حساس ہو تو اُسے ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ وہ ہزارہ شیعہ برادری کی مظلومیت کو سمجھنے کیلئے علمدار روڈ پر کڑکٹی سردی میں ۱۰۰ جنازوں سمیت دھرنا دینے والوں کو یاد کرے، یا اُس کوئٹہ کی سنچری کو یاد کرے جو تکفیری قاتلوں نے ہزارہ ٹاون میں بنائی تھی، یا اُن پمفلٹس کو یاد کرے جو لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کی طرف سے ہزارہ شیعہ کی آبادیوں میں پھینک کر اُنہیں کوئٹہ چھوڑںے یا مرنے کیلئے تیار رہنے کی دھمکیاں دینے کیلئے گرائے جاتے تھے۔ اُسے یہ یاد کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ صرف اپریل کے مہینے میں ہزارہ شیعہ چھ حملوں کا نشانہ بن چکے۔ ہزارہ شیعہ برادری کی مظومیت اور اُن کی مظلومیت پر قوم کی اجتماعی بے حسی کو سمجھنے کیلئے صرف محمد مرتضی ہزارہ اور اُس کے باپ کی تصویر کافی ہے۔ آپ یہ تصویر ایک بار غور سے دیکھئے گا ضرور، مرتضی آپ کو بھی رلا دے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn