دلجان علی سن 1927ء کو لاھور کے نواحی گاؤں برکی میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول ہی سے حاصل کی۔
1943 میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب برِصغیر میں برٹش انڈین آرمی میں جبری بھرتیاں ہوئیں تو انکو بھی برٹش انڈین آرمی میں بھرتی کر کے برٹش انڈین آرمی کیساتھ یورپ میں کسی محاذ پر بھیج دیا گیا۔ دو سال بعد جب جنگ ختم ہوئی تو وطن واپس لوٹے۔
تقسیم ہندوستان کے بعد جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو پاکستان میں آرمی اور پولیس میں اُن لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جو انگریز دور میں کسی ایسے ادارے سے وابستہ تھے یا جن لوگوں نے دوسری جنگِ عظیم میں حصہ لیا تھا۔ دلجان علی بھی پولیس میں بھرتی ہوگئے اور کئی سال پولیس میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔
سن 1963ء میں جب دلجان علی کی پوسٹنگ ڈسکہ میں حوالدار کے طور پر ہوئی تو وہاں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب تھی۔ کچھ خطرناک ڈاکوؤں کے گروہ تھے جنہوں نے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا، آئےدن ڈاکے ،قتل، آغوا کی وارداتیں ہوا کرتی تھیں۔
پولیس نے اُن میں سے ایک گروہ کے خلاف کاروائی کا پلان بنایا، مخبر کی مخبری پر جب اُس جگہ حملہ کیا گیا جہاں ڈاکو چھپے ہوئے تھے تو پولیس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ ڈاکو جدید اسلحہ سے لیس اور اچھی خاصی تعداد میں تھے۔
حوالدار دلجان علی نے اپنی پولیس نفری کے ساتھ مل کر انتہائی دلیری سے اُن ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا ،اور خود تین ڈاکوؤں کو واصلِ جہنم کیا۔ اس دوران پولیس نے ڈاکوؤں پر غلبہ پا لیا اور ڈاکؤوں نے ہتھیار ڈال کر گرفتاری دینے کا عندیہ دے دیا۔
جب نفری سے کہا گیا کہ آگے بڑھ کر اُن کو گرفتار کیا جائے تو حوالدار دلجان علی نے کہا کہ یہ ذمہ داری وہ اپنے سر لیتے ہیں اور ڈاکوؤں کے گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کرنے کے لئے اُسکی جانب بڑھے جو کہ اپنا ہتھیار پھینک چکا تھا۔ جیسے ہی حوالدار دلجان علی اُسکے پاس پہنچے اُس نے جلدی سے اپنی بندوق اُٹھا کر دلجان علی پر اندھا دھند گولیاں برسانی شروع کر دیں اور دلجان علی موقعہ پر ہی شہید ہو گئے۔ ڈاکوؤں کے گروہ کا سرغنہ مارا گیا، بہت سے دوسرے ڈاکو مارے گئے اور باقی گرفتار ہوئے۔
حوالدار دلجان علی شہید کو انکی شجاعت اور قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے پنجاب پولیس نے پولیس شہداء کے لئے سب سے بڑے اعزاز ” قائداعظم پولیس میڈل ” سے نوازا۔ قائداعظم پولیس میڈل پولیس کے شہداء کے لئے ویسا ہی اعزاز ہے جیسا کہ آرمی کے شہداء کے لئے سب سے بڑا اعزاز ” نشانِ حیدر ” ہے۔ دلجان علی شہید کے جسدِ خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر اُنکے آبائی گاؤں لایا اور مکمل اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ جس وقت اُنہیں قبر میں اُتارا گیا پولیس بینڈ اپنی مخصوص دھنیں بجا رہا تھا، کچھ پولیس کے جوان قبر کی ایک طرف کھڑے اپنی بندوقوں کا رُخ آسمان کی طرف کئے ہوئی منظم انداز میں سلامی کے لئے ہوائی فائرنگ کر رہے تھے، سورج کی کرنیں چمک رہیں تھیں اور شہید کے لواحقین کی آنکھوں میں آنسوؤں کی رِم جِھم جاری تھی۔ شہید کو درگور کر کے ا نکے جسم پر مٹی ڈالی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا نام بھی کہیں دفن ھوگیا۔
یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ میں نے اس شہید کے بارے میں ہی کیوں لکھا جبکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے شہداء ہیں جنہوں نے اس سر زمیں کی خاطر اپنی جان کی قربانیاں دیں۔ اسکا جواب یہ ہے کہ جب حوالدار دلجان علی شہید ہوئے تو انکی کوئی اولاد نہ تھی۔ جب تک اُنکے بھائی ذندہ رہے وہ انکا تذکرہ کرتے رہے اُنکی یاد مناتے رہے لیکن اب جب دلجان علی شہید کا کوئی بھائی اور بہن بھی ذندہ نہ رہی تو آج اس شہید کا نام لیوا کوئی نہیں، کوئی فاتحہ پڑھنے والا نہیں، اگر اُن کی اولاد ہوتی تو شائد اُن کا نام رہتا۔
خواہش تھی کہ میں اس شہید کے متعلق کچھ ذیادہ لکھتا لیکن میں انکے متعلق بس اتنی ہی معلومات اکھٹی کر پایا۔ ایک ایسے شخص کا نام جس نے ملک و قوم کی سالمیت کی خاطر اپنی جان قربان کی بالکل معدوم ہو گیا تھا۔ سنتے آئے ہیں کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے لیکن حیات قومیں ذندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے شہداء کو یاد رکھتی ہیں۔
ھم نے Ideas9 کی طرف سے شہید دلجان علی کے نام کا پودا لگایا گیا تھا ،الحمداللہ اب وہ پودا ایک سال سے ذائد کا ہو چکا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn