مزدوروں کو سال بھر کے لئے ایک ہزار روپیہ تنخواہ بڑھنے پرمبارکباد,,خوشی ایسی ہے کہ سمٹتی ہی نہیں مسکرانے سے,کیا سال بھر کی مہنگائی بھی اس رفتارسے بڑھے گی ، اگر دولت ہی ذریعہ راہ نجات ہوتی تومغل شہنشاہ کو یہ نہ کہناپڑتا
کتنابدنصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دوگز زمیں بھی نہ ملی کو ئے یار میں
جھوٹ کو تمام معاشرئی برائیو ں کی جڑ کہا گیا ہے ، جھوٹے شخص پر خدا کی لعنت جیسی وعید سنائی گئی ہے ، ایک جھوٹ ساری زندگی کے قائم کردہ اعتماد کو لمحہ بھر میں ریز ہ ریزہ کر دیتا ہے اسی طرح غربت کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے Poverty is the mother of all evils یہ با ت ہر کوئی جانتا ہے ، ماسوائے حکمران طبقہ کے ،غور کیاجائے توغربت جھوٹ کی بھی ماں کہلائے گی ،غربت تو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ، جسکے گھرکا تین وقت کا چولہا جلنا مشکل ہو اور وہ اس گردش دوراں سے نمٹنے کے لئے کو ئی غیر قانونی کام سرانجام دے ڈالے تو سو چنا پڑے گااس کا ذمہ دار صرف وہ ایک شخص ہے یا اس کو یہاں تک پہنچانے والے وہ تمام معاشرتی عناصر
بقول شاعر
میں نے پوچھاکہ قتل کیجئے گا
اس نے ہنس کر کہا، کہا آنکھوں سے
اتناکہتے ہیں قتل کر ڈالا
اس نے آنکھیں ملاکر آنکھوں سے
ابوہر یرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
اے ابوہر یرہؓ !میں تمہیں دنیا کی حقیقت دکھاؤں ؟ میں نے عرض کیا دکھلائیے ، اس پر آپؐ میرا ہاتھ پکڑ کر مدینہ کے ایک طرف لے گئے ، جہا ں لوگوں کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں اور کوڑاکرکٹ تھا ،آپ ؐ نے فرمایا ۔
اے ابوہر یرہؓ یہ کھوپڑیا ں بھی تمہاری طرح حریص تھیں تمہاری طرح امیدیں باندھتی تھیں ، آج یہ ہڈیاں ہیں نہ ان پر چمڑا ہے یہ مٹی بن چکی ہیں ، یہ کوڑا طرح طرح کے کھانے تھے جن کو کھا یا، جہاں سے کمانا تھا ، کمایا پر تمہارے بیٹوں نے اسے پھینک دیا ، آج ان سے نفرت آتی ہے یہ چیتھڑے کبھی لباس تھے آج ہوا انہیں اڑا رہی ہے ، یہ ہڈیاں سواریاں تھیں جو بشر لئے پھرتی تھیں ، جسے دنیا کے انجام پر رونا ہو روئے ،اس کے بعد آپ ؐبہت روئے ۔۔۔۔۔
حاتم طائی صوبہ یمن کو ایک دل والا ، بڑا بھاری دولت مند شجاع ، عادل شاعر اور زمانہ جاہلیت کا سخی وسخنور آدمی تھا جو 8ہجری میں فوت ہوا یہ شخص کسی کو مختاج نہ دیکھ سکتا تھا ، جو کچھ بن پڑ تا گھر سے نکال کر حاجت مند وں کی حاجت روا کرتا اس کی سخاوت کے چرچے زبان زدعام تھے ، نوفل بادشاہ عرب کے دل میں اس کی سخاوت کی شہرت سے رشک وحسد کی آگ بھڑک اُٹھی کہ میری شہرت تو باوجود فرمانروائی نہ ہو اور حاتم اس قدر مشہورہو جائے۔ اس نے اس کی گرفتاری کے واسطے بڑا بھاری انعام مقرر کر دیا ، لوگ حاتم کی تلاش میں چاروں طرف دوڑ پڑے، حاتم کو اس بات کی خبر ہو گئی ، وہ ایک جنگل میں جاچھپا، وہاں ایک غریب لکڑہار اور اسکی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے بیوی نے میاں سے کہا تم دیکھو، ہم کسی مصیبت سے پیٹ میں ٹکڑا ڈالتے ہیں ، کلہاڑی سے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے ہیں ، بدن تھکاوٹ سے چور چور ہوجاتا ہے ، کانٹوں سے ہتھیلیاں سوجن زدہ ہوجاتی ہیں، گرمی سے پسینوں کادریا بہہ نکلتا ہے ، ببول کے کانٹوں سے پاؤں چھدچھد کر چھتہ بن جاتے ہیں ، اس روز مرہ مشقت سے گزرنے کے باوجود بھی حالات جوں کے توں ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ آج ہمیں حاتم مل جائے ، ہم اسے پکڑ کر خوشی خوشی نوافل کے پاس لے جائیں وہ اتنی دولت دے کہ ہمارا گھر بھرجائے اور ہمارے یہ بڑھاپے کی عمر آرام سے کٹ جائے۔ اس کے خاوند نے کہا !اری احمق ہماری اور ایسی قسمت !اگر ہم خوش نصیب ہوتے تو کسی اچھے گھر میں پیدا نہ ہوتے ۔ حاتم ایک درخت کے پیچھے چھپا ہوا یہ باتیں سن رہاتھا۔ اس کیفیت سے اس کا دل بھر آیا فوراًسامنے آکھڑا ہوا، بھائی میں حاتم ہوں، مجھے پکڑو اور لے چلو، میرے دن رات کا سانسا مٹ جائے گا، حاتم نے اس شعر کی تصدیق کر دی
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی توکوئی بات نہیں
مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس دور حکومت میں چوتھا بجٹ پیش کیا ہے جس کا خلاصہ وہی روایتی ساہے، تھا ،تھی ، تھے اور گا، گی ، گے ۔۔۔۔
گڈ گورننس کے بے وقت اور بے وُقعت راگ الاپنے والے قوم کو یہ نو ید سنار ہے ہیں کہ ہم نے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا، اس اہم کامیابی پر پھولے نہ سمانے والوں کاموقف یہ ہے کہ آئندہ مالی سالی کے لیے شرح نمو 5.7فیصد ہوگی، گزشتہ برس کے لیے شرح نمو حاصل کرنے کاٹارگٹ 5.5فیصد تھا ، مگر اندازے کے مطابق حکومتی شرح نمو 4.7فیصد رہی، اصل حقائق ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور کی طرح مختلف ہیں، یہ شرح نمو بمشکل 3.1فیصد تک وہی ،امسال 2016-17کے بجٹ میں کی اشیاء پر نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں مثلاًمکھن، منزل واٹر کولڈڈرنکس، پان، چھالیہ، سگریٹ، سیمنٹ ، مشروبات بسکٹ، سٹیشنری، کاسمیٹکس ، ٹوتھ پیسٹ ، خشک دودھ ، موبائل فون، ایئر کنڈ یشنز وغیرہ سمیت 250ارب کے نئے ٹیکس بھی عائد کردیے گئے ہیں، بدقسمتی سے صحت اور تعلیم کے لیے بجٹ ایک ایک فیصد کے قریب ہے ، اس پر اپوزیشن کی طر ف سے ابھی تک اپنے لبوں کو جنبش نہیں دی گئی ، ان دونوں شعبوں کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ اساتذہ اور صحت کے شعبے سے وابستہ ملازمین آئے روز انفراسٹریکچر اور سروس سڑیکچر کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر احکام بالا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی سرکاری سکول کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں ، کہیں فرنیچر اور چار دیواری نہیں اور کہیں ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر رکھنے کی جگہ میسر نہیں،دوائیوں کی کہانی پھر کبھی سہی، اپوزیشن اگر جاندار ہوتی ہے تو سالانہ لیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کرتی مگر اس کے لیے اسمبلی میں آنا ضروری ہوتا ہے اپوزیشن کے رہنما بجٹ کی تقریر کے دوران بھی غیر حاضر رہے، لگتا یہی ہے کہ قوم کو اسحاق ڈار کی چالاکیوں کے حوالے کر دیاگیا ہے
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ حاتم طائی تک ظہور اسلام کی خبر پہنچتی تو ضرور مسلمان ہوجاتا البتہ اُس کے بیٹے نے اسلام قبول کر لیا تھا کیا حکمرانوں کے کانوں تک عوام کی چیخ وپکار کی خبر نہیں پہنچ رہی، اصل حاتم طائی وہ تھا یا کہ ہمارے رحم دل حکمران، فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں ۔۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn