ایک بستی رات دن جس کا مقدر آفتاب
روشنی در روشنی جیسے بہتر آفتاب
دھوپ میں ماتم کے عادی ہیں ہمیں کیا خوف ہو
کیا سوا نیزے پہ ہو گا روزِ محشر آفتاب
گود میں اصغر ؑ کو لے کر خود سے کہتے تھے حسینؑ
چاند بھی ہو جائے گا مقتل میں جا کر آفتاب
اے دیے خاموش ہو اے روشنی رخصت پہ جا
چُن رہا ہے اس گھڑی کرنوں کا لشکر آفتاب
اڑ گیا دریا کاپانی بھاپ بن کر اڑ گیا
دو قدم اترا تھا بس دریا کے اندر آفتاب
حُر ؑ کے آنے پر بھلا حیرت کی کیسی بات ہے
جس جگہ کا تھا پلٹ آیا وہیں پر آفتاب
جونؑ کے چہرے کی تابانی صدا دیتی رہی
جس کو چاہیں بھیج دیں مولاؑ بنا کرآفتاب
تب لکھا جائے گا اکبر مجھ سے احساسِ عطش
میرے قدموں میں ہو دریا اور سر پر آفتاب
کلام: باوا حسنین اکبرؔ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn