وہ حسب معمول اپنے دفتری کاموں میں مصروف تھا۔ اس کے سامنے میز پر کئی فائلیں پڑی تھیں جن کا وہ بڑے احتیاط کے ساتھ کمپیوٹر میں اندراج کر رہا تھا۔ اس کی نظریں بار بار دیوار پر لگی گھڑی کی طرف اٹھ جاتیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنا کمپیوٹر بند کردیا اور اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"سر میرے بچوں کی چھٹی کا وقت ہورہا ہے، میں انہیں گھر پہنچا کر واپس آؤں تو باقی کام بھی کرلوں گا” اس نے اپنے آفیسر کی طرف دیکھ کر کہا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا اور اس کا آفیسر اس معمول سے اچھی طرح واقف تھا۔
"ٹھیک ہے۔ لیکن خیال رہے کہ مہینہ ختم ہونے کو ہے اور ہمیں آج ہر صورت میں کام مکمل کرکے ہیڈ آفس کو رپورٹ کرنی ہے تاکہ سب کو تنخواہیں وقت پر مل سکیں” آفیسر نے اپنے کمپیوٹر سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
"جی سر” اتنا کہہ کر وہ باہر نکالا۔ اس کی موٹر سائیکل پاس ہی ایک سٹینڈ پر کھڑی تھی۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور چابیوں کا ایک گچھا نکال کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے لگا۔
اس کا رخ اس سکول کی جانب تھا جہاں اس کے دونوں بچے پڑھتے تھے۔ بیٹا چوتھی جماعت میں تھا۔ اس کا شمار کلاس کے اچھے طلباء میں ہوتا تھا۔ وہ بڑا سلجھا ہوا بچہ تھا۔ عجیب بات تھی کہ اسے بڑا ہوکر وکیل بننے کا شوق تھا۔ حالانکہ اس کی کلاس کے اکثر بچے بڑے ہوکر انجنیئر یا ڈاکٹر بننے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ خود اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا مستقبل میں ایک بڑا آفیسر بنے لیکن اس نے کبھی اپنے بیٹے سے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا اور یہی سوچ کر خاموش رہا کہ جب وہ بڑا ہوگا تب دیکھا جائے گا۔
اس کی بیٹی تیسری کلاس میں پڑھتی تھی۔ بہت باتونی تھی اس لیے سارا دن پٹر پٹر کرتی رہتی تھی، جسے دیکھ کر وہ اپنی بیوی سے اکثر مذاق میں پوچھتا کہ
"کہیں تم نے غلطی سے اسے کوے کا گوشت تو نہیں کھلایا؟ جب بھی دیکھو کائیں کائیں کرتی رہتی ہے۔” جواب میں بیوی مسکرا کر رہ جاتی۔
وہ سکول کے پاس پہنچا تو گھنٹی بج چکی تھی اور بچے گروہوں کی صورت میں گیٹ سے باہر نکل رہے تھے۔ سکول کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بھیڑ لگی تھی۔ اس کی نظریں اپنے بچوں کو تلاش کرنے لگیں۔ ابھی اسے انتظار کرتے تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی جب اس نے ان دونوں کو گیٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔ اس کے بیٹے نے اپنی بہن کا ہاتھ ایسے تھام رکھا تھا جیسے کوئی بڑی ذمہ داری نباہ رہا ہو۔ جبکہ بیٹی کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ یقینا وہ اب بھی کائیں کائیں کر رہی تھی۔ ابو پر نظر پڑتے ہی دونوں کے چہروں پر خوشی اور اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ تیز قدموں سے موٹر سائیکل کی طرف لپکے۔ پاس پہنچ کر دونوں نے مسکرا کر ابو سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پہلے بیٹی کو بازؤں میں اٹھاکر موٹر سائیکل کی ٹنکی پر بٹھایا پھر جب خود بھی بیٹھ چکا تو سہارا دے کر بیٹے کو بھی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بٹھادیا۔ سڑک پر ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ تھی کیونکہ یہ سکولوں کی چھٹی کا وقت تھا۔ ہر کسی کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے ہر طرف ہارن بج رہے تھے جن سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس نے رش سے بچنے کے لیے ایک نسبتاَ چھوٹی سڑک کا انتخاب کیا۔ اسے بھی جلدی گھر پہنچنا تھا تاکہ بچوں کو اتارنے اور ایک دو نوالے کھا نے کے بعد دوبارہ دفتر پہنچ سکے۔ اتفاق سے اس سڑک پر بھیڑ کم تھی۔ ذرا خاموشی ہوئی تو کانوں میں بیٹی کی پٹر پٹر کی آوازآنے لگی۔
"ابو پتہ ہے آج ہماری مس نے ہمیں ایک بہادر شخص کی کہانی سنائی جس نے گھر میں گھسنے والے چوروں کو مار مار کر بھگا دیا تھا۔ میں نے تو سب کو بتادیا کہ ہمارے ابو دنیا کے سب سے بہادر انسان ہیں، سارے چور اچکے ان سے ڈرتے ہیں، اسی لیے تو آج تک ہمارے گھر میں چوری نہیں ہوئی”
بہن کی بات سن کر پیچھے بیٹھا بھائی بھی بول پڑا۔
"ابو میں جب بڑا ہوکر وکیل بنوں گا ناں تو ان سب چور اچکوں اور ڈاکوؤں کو ایک ایک کرکے سزا دلواؤں گا، دیکھ لینا!”
"جی کیوں نہیں” ابھی اس نے بیٹے کے جواب میں اتنا ہی کہا تھا جب تڑاخ سے ایک تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔ وہ ہڑبڑا گیا۔ موٹر سائیکل لڑکھڑانے لگی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گر پڑتے اس نے موٹر سائیکل سنبھال لی۔ اس کا گال جھنجھنا رہا تھا۔ وہ حیران اور پریشان تھا کہ یہ بلائے ناگہانی کہاں سے آٹپکی۔ اس کا دھیان بچوں کی طرف گیا جن کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ حیران نظروں سے اپنے ابو کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا جیسے اپنے آپ کو گرنے سے بچارہے ہوں۔ سڑک پر ایک جانب سے شور شرابے کی آوازیں آرہی تھیں۔ تینوں کی نظریں بیک وقت اس طرف اٹھ گئیں جہاں کالے پینٹ اور کوٹ میں ملبوس ایک صاف ستھرا شخص آتی جاتی گاڑیوں پر ٹھڈے برسا رہا تھا۔ اس کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان جاری تھا جبکہ کچھ لوگ اسے سنبھالنے میں مصروف تھے۔
"ابو اسی شخص نے آپ کو مارا ہے” اسے بیٹی کی لرزتی آواز سنائی دی۔ اس کا گال اب بھی جھنجھنا رہا تھا۔
"مجھے اتر کر اس شخص سے پوچھ لینا چاہیے کہ اس نے ایسا کیوں کیا!” یہ سوچ کر وہ موٹر سائیکل سے اترنے ہی والا تھا جب کسی نے چلاتے ہوئے اسے چلے جانے کو کہا۔
راستے بھر پھر ان میں سے کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ ان کے ہونٹوں پر جیسے کسی نے چپ کی مہر لگا دی تھی۔ وہ گھر پہنچے تو بچے خاموشی سے اتر کر کمروں میں چلے گئے۔ وہ بھی خاموشی سے غسل خانے میں گھس گیا جہاں وہ کافی دیر تک آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا گال سہلاتا رہا۔ اس پر پڑے تھپڑ کا نشان تقریبا مٹ چکا تھا۔ لیکن اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے چہرے پر ہی نہیں بلکہ دل و دماغ میں بھی آگ سی دہک رہی ہو۔ اسے بیٹی کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ کتنا مان تھا اس کے بچوں کا اس پر؟ وہ تو اسے دنیا کا سب سے بہادر باپ سمجھتے تھے۔ لیکن آج ایک تھپڑ نے ان کا سارا مان توڑ دیا تھا۔ کیا میرے بچے آئندہ میرا بھروسہ کر سکیں گے؟ کیا وہ اب بھی مجھے دنیا کا سب سے بہادر باپ تسلیم کریں گے؟ وہ انہی سوالوں کی کھوج میں گم تھا جب اس کی بیوی کی آواز آئی۔
کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے، جلدی سے آجائیں۔
وہ دھیمے قدموں سے باہر نکلا لیکن دسترخوان کی طرف بڑھنے کے بجائے موٹر سائیکل کی طرف جانے لگا۔
"ارے کہاں جارہے ہو، کیا کھانا نہیں کھانا؟” بیوی نے اسے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔
"نہیں آج دفتر میں کچھ زیادہ کام ہے” اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ اسی دوران اس کے دونوں بچے بھی باہر نکل آئے اور اس کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے۔
اس کی بیٹی نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو تھاما اور کہنے لگی "ابو ایک دن ہماری مس نے ہمیں ایک پاگل شخص کی کہانی سنائی تھی جو ہر آنے جانے والے کو گالیاں دیتا اور پتھر مارتا تھا۔ ہماری مس نے کہا تھا کہ ایسے لوگ بیمار اور قابل رحم ہوتے ہیں اس لیے عقل مند لوگوں کو چاہیے کہ ان سے الجھنے کے بجائے ان کے علاج کی کوشش کریں۔ آپ نے اچھا کیا کہ اس شخص سے الجھے نہیں۔ اب پاگلوں سے الجھنا بہادری تھوڑی ہے؟”
"ابو میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ میں بڑا ہو کر وکیل نہیں بنوں گا بلکہ ڈاکٹر بن کر پاگلوں کا علاج کروں گا” یہ اس کے بیٹے کی آواز تھی جو اس کے اور بھی قریب آکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے اپنے ابو کے لیے ڈھیر سارا پیار چھلک رہا تھا۔
بچوں کی باتیں سن کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے دل و دماغ میں جلنے والی آگ پر ڈھیر سارا ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہو۔ وہ نیچے جھکا اور بچوں کو بانہوں میں بھر کر ان کے بال سہلانے لگا۔
"اپنی امی سے کہنا کہ میں واپس آکر کھانا کھاؤں گا اور ہاں آتے ہوئے آئسکریم بھی لیتا آؤں گا” اس نے بچوں کے کانوں میں سرگوشی کی اور پھر سیدھا ہوکر موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn