رات گئے پریس کلب سے گھر آکر ابھی دماغ مکمل طور پر سویا بھی نہیں تھا کہ کے فون کی چنگھاڑ تی ہوئی آواز نے ناچاہتے ہوئے بھی اٹھنے پر مجبور کردیا یہ وہ زمانا تھا جب سمارٹ موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ان کی جگہ بریف کیس جتنا بڑا فون ہوتا تھا۔ وہ بھی ہمارے جیسے غریب رپورٹر کی پنہچ سے بہت دور تھا اور ویسے فون اٹھانے کی جلدی اس لیےبھی ہوتی تھی کہ کہیں کوئی اور نہ اٹھا لے کیونکہ رات کے اس وقت اکثر فون میرے ہی لیئے آتے تھے۔ خیر فون اٹھایا تو دوسری طرف میرے ایک دوست اور سینئر جرنلسٹ صفدر کلاچی صاحب تھے، جھٹ سے بولے سورہا تھا؟ میں نے کہا نہیں کوشش کررہا تھا۔ اس پر جواب دئے بغیر گویا ہوئے کہ دس منٹ میں دفتر آجاو میں بھی آ رہا ہوں ضروری خبر ہے۔ یہ وہ دور تھا جب صحافی حضرات خبر اور اس کی صداقت جاننے کے لیئے عملی کوشش کرتے تھے اور تحقیق کے بغیر خبر چھپا بھی نہیں کرتی تھی۔ خیر میں جیسے تیسے دفتر پنہچا تو صفدر بھائی موجود تھے، بولے جلدی سے نکلو۔ فوٹوگرافر ان کے ساتھ تھا بس جلدی سے بتا یا کہ نہر پر انبساط کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے اور وہ ابھی ڈاکٹرز ہسپتال میں ہیں ہمیں وہاں چلنا ہے۔
انبساط اور میاں یوسف صلاح الدین کی تازہ تازہ علیحدگی ہوئی تھی۔ انبساط ابھی اخبار کی سرخیوں میں موجود تھیں اور وہ بہت کچھ جانتی تھیں جسے ہم بھی جاننے کیلئے بے چین تھے۔ ہمارا سفر شروع ہوچکا تھا، انبساط سے جڑی ہر چیز دماغ میں تیزی سے گھوم رہی تھی کہ شاہدرہ کی ایک لڑکی کیسے ہوم اکنامکس کالج آتی ہوگی۔ ایم اے کی طالبہ اپنے سے عمر میں خاصے بڑے شخص کی محبت میں کیسے گرفتار ہوئی؟ پھر سابق گورنر مصطفی کھر کی سابق اہلیہ تہمینہ درانی کے گھر رات کے آخری پہر نکاح کا ہوجانا ، شادی اور پھر میاں صلی کی حویلی میں شفٹ ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ ویسے بھی یہ میری صحافتی زندگی کا بالکل آغاز تھا اور اوائل عمری کی طرح میں چوکس تھا۔ میرا دماغی سفر ابھی جاری ہی تھا کہ ہم منزل مقصود پر جاپنہچے تو فوٹوگرافر کو صدر دروازے پر ہی روک دیا گیا۔ہم کسی طرح اندر جانے میں کامیاب ہوئے اور کچھ لمحوں کے بعد ہم دونوں انبساط کے سامنے تھے جن کے ساتھ ایک خاتون اور ایک مرد بھی تھے۔ انھیں زیادہ شدید چوٹیں تو نہیں آئی تھیں مگر پروٹوکول بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے بات ہوپانا ذرا مشکل تھا تاہم سوال کے جواب میں صرف ایک جملہ عطا ہوا کہ میں ان کے بارے میں سب جانتی ہوں اور وہ دونوں مجھے مروادیں گے۔
کون دونوں مروادیں گے کیا ہوگا کون ہوگا کی باتوں سے پرے میں تو انبساط کو دیکھ کر پریشان تھا۔ وہ بہت خوفزدہ سی لگ رہی تھی اور جلدی جلدی ہسپتال سے نکلنا چاہ رہی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد انبساط کے اس سوال کا جواب مجھے ان کہ ایک غیر ملکی اخبار میں چھپے انٹرویو میں مل گیا کہ وہ دوسرا کون تھا مگر انبساط اب کہاں اور کس حال میں ہے اس بارے میں کم از کم میں اپنی لاعلمی کا اقرار سب کے سامنے کرنے کو تیار ہوں۔
آج ایک طویل عرصے کے بعد پھر مجھے انبساط کی کہانی نجانے کیوں عائشہ گلالئی کی وجہ سے یاد آگئی۔ ایک مخصوص طبقے میں پلے بوائے کے نام سے مشہور شخصیت کی وجہ شہرت اور بہت سے اچھے کاموں کی وجہ سے ہو یا نا ہو مگر آج بھی میاں صلی کی حویلی کے گرد رہنے والے ان کی وہاں آمدورفت کی شہادت دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ریحام خان کی طرف سے عائد کردہ الزامات سے قطع نظر اگر عائشہ گلالئی کی بات پر یقین نہ بھی کریں تو بھی کپتان کا ماضی اتنا بے داغ نہیں جنہیں واشنگ پاوڈر سے دھوکر کہا جاسکے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی کے کرتا دھرتا افراد کو اس مسئلے کے واضح حل کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ جے آئی ٹی جیسی کوئی چیز ہی آئے مگر مستقبل میں وزیراعظم بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ان تمام دعووں میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہوگا جس کی نوید کپتان پچھلے ایک عر صے سے قوم کو دیتے رہے ہیں تاکہ اس طرح کی آوازوں کا مکمل سدباب کیا جاسکے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn