زمانہ بدل رہا ہے ہمارا اپنی ہی نوجوان نسل سے جنریشن گیپ بڑھتا جارہا ہے۔ اب سے پہلے ہماری جو آراء اپنے بڑوں کے بارے میں ہوا کرتی تھی وہی اب ہم سے چھوٹوں کی ہمارے بارے میں بنتی جارہی ہے کہ انھیں کیا پتا ۔۔۔۔ اپنی جو باتیں ہم اپنے بڑوں سے چھپایا کرتے تھے بالکل اسی طرح اب ہمارے سے عمروں میں چھوٹے ہم سے چھپاتے ہیں۔ گھر میں جب اپنے بچے بھانجے بھتیجے کہیں الگ بیٹھے ہوں اور آپ اچانک داخل ہوں تو یکدم سارے بچے چپ ہوجاتے ہیں جیسے اگر کوئی بات سن لی تو کچھ ہوناجائے۔ آپ کی غیر موجودگی میں بچوں کا ہنسنا اور آپ کی موجودگی میں خاموش ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ اب آپ اور موجودہ نسل میں تجربے یا عمر کا فرق نمائیاں ہوچکا ہے جسے دنیا جنریشن گیپ کے نام سے جانتی ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں آپ اپنی اس نسل سے دوستی کی کوشش کریں انھیں اپنے ماضی کی داستانیں سنائیں گپ شپ لگائیں تاکہ انھیں اپنی باتیں کسی اجنبی سے نا کرنی پڑیں۔ مجھے یاد ہے کالج میں ہمارے ایک استاد تھے جناب باقر رضوی صاحب، وہ کہا کرتے تھے کہ اپنی جوانی کو بھرپور انداز میں گزارو تاکہ تمہیں اپنے بچوں کو اور بچوں کے بچوں کو جھوٹی کہانیاں گھڑ کے نا سنانی پڑیں۔
مگر تلاش معاش نے ہر انسان کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ اب حس لطیف آھستہ آھستہ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ حال یہاں تک برا ہوچکا ہے کہ ہم میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں پتا کہ ہمارے بچے کون کونسی کلاس میں پڑھتے ہیں، ان کے مضامین کیا ہیں، ان کی عادات کیا ہیں، کیا کھاتے ہیں کیا پیتے ہیں، کونسے دوست ہیں، اپنا فارغ وقت وہ کہاں گزارتے ہیں، کالج یونیورسٹی میں ان کی صحبت میں کون لوگ ہوتے ہیں یا وہ کن کی صحبت میں ہوتے ہیں، ان کے موبائیل فون میں کونسی ایکٹیویٹی چل رہی ہے، وہ کونسے مذہبی نظریات کے تابع ہوتے جارہے ہیں، فیس بک پر کیا ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ – اور اگر کوئی تبدیلی بظاہر نظر بھی آجائے تو اسے بچہ ہے — کہہ کر ماننے سے انکار کردیتے ہیں یا ابھی عمر پڑی ہے بچہ ہے بڑا ہوگا تو ٹھیک ہوجائے گا جیسی تسلیاں کافی ہوتی ہیں۔
حالانکہ یہی وہ عمر ہے جسے بہانا بنا کر ہم آنکھیں موند کرلیتے ہیں اور کوئی اسی عمر کو سامنے رکھ کر اس پوری نسل کو داؤ پر لگانے کیے چکر میں ہے۔ میرے ملک کی پوری نوجوان نسل کا مستقبل شدید خطرے میں ہے اور یہ ایسا خطرہ ہے جسے ہم ابھی محسوس نہیں کررہے مگر میں زاتی طور پر مشکور ہوں محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) کا جنھوں نے ہماری آنکھوں پر بندہی پٹی کو کھولنے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے اور ہمیں آگاہ کیا ہے کہ ہماری یہ نسل شدت پسندی کے فروغ کی طرف مائل ہورہی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مدارس دینیہ کے طلبہ کی جگہ اب مختلف جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات اس شدت پسندی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے ملک بھر کی جامعات میں شدت پسندی کے فروغ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ اب مدرسے کے شدت پسند طلبہ کی جگہ محتلف جامعات، میڈیکل کالجز کے ہونہار اعلی تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات اس رجحان کا شکار ہورہے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں شدت پسندی کی روک تھام کے حوالے سے منعقد کیئے گئے ایک مشاورتی اجلاس میں پولیس کے اعلی افسران کے علاوہ سرکاری و نجی یونیورسٹیوں کے 40 وائس چانسلرز ، پرو وائس چانسلرز اور ڈائریکٹرز اور ماہرین کی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس طرح کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے اور بطور ثبوت لیاقت میڈیکل کالج جام شورو کی طالبہ نورین لغاری اور اس کے اعترافی بیان پر بحث بھی کی ہے جس میں اس نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ کیسے کالج میں اسے قائل کیا گیا اور جہاد کے حوالے سے اس کی خدمات حاصل کی گئیں کس طرح میڈیکل کالج میں اسے مذہبی امور کی طرف راغب کیا گیا۔ دس دس لڑکیوں کے گروپ بنا کر درس دئیے جاتے اور اس نظام حکومت کو کفار کے پیروکار بناکر پیش کیا جاتا اور اس ملک اور اس میں رائج نظام کو اسلام کے منافی قرار دیکر طالبات میں جذبہ جہاد کو بیدار کیا جاتا تھا۔ میرے نزدیک اس قسم کے مشاورتی اجلاس کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ ارباب اختیار کہیں نا کہیں اس ملک کی سالمیت کے بارے میں کسی نا کسی انداز میں فکر مند ہیں۔ تحریک طالبان، لشکر جھنگوی و دیگر جہادیوں کے ساتھ ساتھ داعش کا خطرہ بھی ہم پر منڈلا رہا ہے۔ اس کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جارہی ہے کی بات سے الگ اگر ان جہادیوں نے ہماری نوجوان نسل پر اپنے رجحانات مضبوط طریقے سے طاری کرڈالے تو ہمارے لیے مشکلات بہت حد تک بڑھ سکتی ہیں جس کا تدارک بہرحال ضروری ہے۔
نورین لغاری کا انجام کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہو ا اس بات کے بالکل برعکس سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ نورین میں تبدیلی کے محرکات پیدا کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ ان عوامل کی روک تھام کس طرح کی گئی؟ میڈیکل کالج کی انتظامیہ کی طرف سے غفلت برتنے پر کسی نے کوئی جواب طلبی بھی کی یا نہیں؟ مگر نورین کے مسئلے سے کھلنے والی آنکھیں اب کھلی رہنی چاہیں اور دہشت گردی کے مکمل انسداد کیلئے جو کام شروع کیا گیا ہے اسے اسی طرح زور و شور اور اپنی اب و تاب سے جاری رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم بزرگوں کو بھی اپنی نوجوان نسل سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی جنریشن گیپ کا پاٹ اتنا چوڑا نہیں ہوا جسے عبور نا کیا جاسکتا ہو مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے روزمرہ کے معاملات اور معاشی تگ و دو میں سے اپنے بچوں کو کتنا وقت دے پائیں گے کیونکہ یہ ہمارے بچوں اور ہمارے وطن کے مستقبل کا معاملہ بھی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn