Qalamkar Website Header Image

قلم کار بھی دشمن ہے

ربع صدی سے بھی زیادہ ادھر کی بات ہے۔ ہم چوتھی جماعت میں تھے۔ گھر کے قریب ایک سرکاری پرائمری اسکول میں حصول علم کے لئے جایا کرتے تھے۔ نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن عرف عام اسے لاہور میں ماضی قریب میں متعارف کرائی جانے والی صنف لحم کے جانور کی مادہ کے پنجابی نام سے پکارا جاتا تھا۔ اسکول کیا تھا باقاعدہ ایک کھنڈر تھا جس میں دامے درمے سلسلہ تدریس جاری رکھا گیا تھا۔

چھٹی کے اوقات میں اسکول کے باہر بہت سے خوانچہ فروشوں کی بھیڑ ہوا کرتی۔ جو گول گپے ،شکرقندی، اور اسی قبیل کی دوسری انتہائی ناقص معیار کی اشیاء فروخت کیا کرتے۔ ان سب میں سب سے مشہور جھانا چورن والا تھا جو ٹاٹری سے بنا کھٹا چورن ،املی اور اس طرح کی دوسری انتہائی مضر صحت اشیاء بیچتا تھا۔ چھٹی کے وقت بچے تقریبا ایسے ہی اس کی ریڑھی پر حملہ آور ہوتے تھے جیسے تاریخی داستانوں میں مرہٹے غیر مرہٹوں پر۔

جھانے چورن والے کی مہربانی اور مستقل مزاجی کی وجہ سے ہمارے سمیت بیشتر بچے گاہے بیمار ہو کر سکول سے غیر حاضر رہا کرتے تھے۔ پھر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ سکول میں ایک بہت ہی زبردست فعال خدا ترس اور محنتی ہیڈ ماسٹر عبدالخالق صاحب کی تعیناتی ہوگئی ۔ عبدالخالق صاحب نے دنوں میں اسکول کی حالت بدل دی۔ برآمدوں اور کمروں کی صفائی ،نئے ٹاٹ ،تختہ ہائے سیاہ کی مرمت ۔کیاریوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ طلباءاور اساتذہ کے ساتھ دوستانہ تعلق ،گویا دیکھتے ہی دیکھتے ساری فضا ہی بدل گئی ۔

عبدالخالق صاحب فارغ اوقات میں سب جماعتوں میں جا کر کے طلباء کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں گپ لگایا کرتے تھے۔ اس گپ میں بڑوں کی عزت ،والدین کے ساتھ حسن سلوک اپنے ،پرائے ،حلال حرام اور زندگی کے بہت سی نشیب وفراز ہم نے سیکھے ۔ انہی گپوں کے دوران انہوں نے کسی وقت ہمیں صحت مند رہنے کی افادیت کے اطوار بھی ایسے ذہن نشین کرائے کہ رفتہ رفتہ ہم چھٹی کے وقت جھانے چورن والے کی ریڑھی پر حملہ آور ہونا چھوڑ گئے۔ یقین جانئیے ان آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جھانا چھٹی کے وقت تنہا کھڑا رہتا اور ہمارے اسکول کا ایک بھی بچہ اس سے چورن نہ خریدتا۔ اور پھر کچھ دنوں بعد ہی جھانا چورن والا ہمارے اسکول کو چھوڑ گیا۔ کہاں گیا پتہ نہیں۔ مگر ہمیں دوباہ نہیں دکھا۔

یہ بھی پڑھئے:  فاٹا اصلاحات کا مسئلہ سیاسی نہیں نفسیاتی ہے

ہم اگر اپنے ارد گرد غور کریں تو آج بھی ہمارا واسطہ ہر موڑ پر ہر ساعت پر کسی نہ کسی جھانا چورن فروش سے پڑتا ہے۔ کوئی جھانا مذہبی فرقہ واریت کا چورن بیچ رہا ہے تو کوئی علاقائی عصبیت کا۔ کوئی سیاست کے نام پر اختلافات کا چورن بیچ کر وسائل سمیٹ رہا ہے اور کوئی معاشی خوشحالی اور راتوں رات ترقی کے جھانسہ کا چورن بیچ کر جیبیں بھر رہا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کی دکان داریاں خوب چل رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ ہماری یعنی عوام کی کم علمی ،شعور و توکل کی کمی اور معصومیت سے۔ یہ سب جھانے عوام کی نفسیاتی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک ہر میدان میں ،چاہے وہ مذہب ہو یا معیشت، معاشرت ہو ،حتی کہ کھیل ۔ بغیر محنت یا کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ کامیابی چاہتا ہے۔ مذہب میں ہم شعائر اسلام پر عمل پیرا ہوئے بغیر بابوں کی کرامات اور سفارش سے جنت کے ٹکٹ کے متمنی ہیں۔ نماز پنجگانہ کی روزانہ پابندی سے سال میں ایک بار بہشتی دروازے سے گذرنے کو یا لعل شہباز کے مزار پر دھمال ڈالنے کو کافی شافی جانتے ہیں۔

یہی حال معیشت میں ہے، حلال حرام کی تمیز سے بے نیاز ،اچھے برے کی تمیز سے مبرا بس ہر ایک امیر ہونا چاہتا ہے اور وہ بھی راتوں رات ۔ رشوت ، بدعنوانی اور کالے دھن کی باقاعدہ متوازی معیشت وجود میں آچکی ہے دودھ ،بیسن سے لے کر ادویہ تک کچھ بھی تو خالص نہیں ملتا ۔اور اسی نفسیات سے کھیلتے ہیں یہ جھانے۔ بالکل اسی طرح جیسے شعور اور آگاہی سے اس وقت ہم اسکول کے بچوں نے جھانے چورن والے کو بھگا دیا تھا ،اسی طرح آج بھی علم ،آگاہی اورشعور سے ان جھانوں کی مکروہ دکان داریاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ علم کا سب سے مطہر اور قابل بھروسہ ذریعہ ہے قرآن پاک۔ جتنی زیادہ معاشرہ میں قرآن فہمی ہوتی چلی جائے گی اتنی ہی شعور کی سطح بلند ہوتی جائے گی اور اتنا ہی اجتماعی معاشرتی کردار پختہ ہوتا جائے گا ۔ اور نتیجتاً اتنا ہی جھانوں کی دکان داریاں مخدوش۔ اس مطہر علم کی ترویج کے جدید ذرائع میں ایک ذریعہ قلمکار بھی ہے۔ اور یقینی طور پر اس اعتبار سے یہ جھانوں کی دکان داریوں کا دشمن ہے۔ ہم میں سے ہر صاحب فہم و استطاعت کو چاہیئے کہ قلمکار کا اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کا جہاں تک ہوسکے دست و بازو بنے ۔تاکہ جہالت کے اندھیروں کو دور کرکے صحت مند معاشرہ کی تعمیر کو ممکن بنایا جاسکے۔ قلمکار کو سالگرہ ثانوی مبارک ہو ۔اللہ کریم اوج کمال عطا فرمائے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں

مزید پڑھیں »

کیا ہوا جو کھاتا ہے؟ لگاتا بھی تو ہے

ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے  نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کِیا ہے کہ میں الیکشن 2018 میں اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر کاسٹ کروں۔ جب میں اپنی عقل کا

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

نواز شریف کو بیٹی اور داماد سمیت سزائیں

جناب نواز شریف’ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد اول کیپٹن (ر) صفدر کو نیب کی احتساب عدالت نے بالترتیب 10سال’ 1+7 سال’ ایک سال کی سزا سناتے ہوئے

مزید پڑھیں »