Qalamkar Website Header Image

قلم کار کے حصے کی شمع

اللہ رب العزت نے کائنات بنائی تو لاتعداد مخلوق پیدا کی۔ خشکی پہ رہنے والی، پانی میں پیراکی کرنے والی، بادلوں ہواؤں فضاؤں میں اڑنے والی اور اس کے علاوہ جو مخلوقات ہمیں دکھائی نہیں دیتیں جیسے جنات یا خوردبینی اجسام۔ ان تمام مخلوقات میں خدا نے انسان کو سب سے احسن درجہ دیا اور اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا۔ یہاں تک کہ حضرت آدم ع کو تخلیق کے بعد فرشتوں سے سجدہ کروایا۔

انسانی ابتداء کا دور پتھر کا تھا اور جسم کو ڈھانپنے کے لئے پتوں کا سہارا لیا جاتا۔ غذا سادہ اور جانوروں سی تھی۔ آہستہ آہستہ حضرت انسان کو شعور آیا تو خوراک پکا کر کھانے لگا ، بہترلباس کا استعمال شروع ہوا اور رہائش کے لئے غاروں کی بجائے گھر بننے لگے۔ ارتقاء کا عمل آگے بڑھا تو کھیتی باڑی، تعلیم، پہیہ، مشینیں بھی متعارف ہوئیں۔ مزید ترقی ہوئی تو ہتھیار ایجاد ہوئے جو خودکار اور جدید اسلحہ سے ہوتے ہوئے ایٹم بم تک پہنچ گئے۔ ساتھ ہی انسانی معیارات بھی مشینوں کے سانچے میں ڈھلتے چلے گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ترقی کے ساتھ انسانی ذہن اور رویے بھی عمدہ ہو جاتے لیکن اس کے برعکس انسانیت برباد ہوتی چلی گئی۔ چاند پر پہنچ گئے خلاء کو تسخیر کر لیا لیکن انسان بےوقعت کر دیا۔ ارتقاء نے رویے ایسے تبدیل کئے کہ صبر ، قناعت اور رواداری کا فقدان ہو گیا۔ منفیت ذہنوں میں جگہ بناتی گئی، مثبت رویے کم ہو گئے اور اخلاقیات کا گلا گھونٹ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  کار مرداں روشنی و گرمی است

کہیں مذہب کے نام پر نسل کشی، کہیں مال و زر کے لئے قتل، کہیں عقیدے و ایمان کے نام پر خون غرضیکہ ہر طرف مارا ماری۔ ابتداء کے انسان کو شاید جنگلی جانوروں سے اتنا خطرہ نہیں تھا جتنا آج کے انسان کو انسان سے ہے۔ سو یہ ہے ہماری ترقی یافتگی کی کل داستان جسے دیکھ کر ایک شاعر کا شعر یاد آیا
بہتر ہے ماہ و مہر پہ ڈالو نہ کمندیں
انساں کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے

یہ بھی سچ ہے کہ مثبت اخلاق بھی کہیں نہ کہیں مقدم رکھا جاتا ہے۔ کرہ ارض پر ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو امن و آشتی کا آوازہ بلند کر رہے ہیں۔ اگرچہ تعداد میں قلیل ہیں لیکن امید واثق ہے کہ چراغ سے چراغ جلنے کا یہ عمل اک روز اس ظلمت کدہ بنی دنیا کو فکری روشیوں سے منور کر دے گا اور بھٹکتی ہوئی انسانیت کو جھوٹ کی ان بھول بھلیوں میں سچ کا روشن راستہ ضرور ملے گا۔ یہ امید تب اور بڑھ جاتی ہے جب جھوٹ سچ معلومات کے طوفان میں قلمکار جیسے پر امن جزیرے پر حق پرستی کا علم لہراتا نظر آئے۔ اس انجمن میں نوجوان اور تجربہ کار لکھاریوں نے مشترکہ طور پر دو سال کے سفر میں علم کی روشنی اور امید کے جتنے دیے جلائے وہ یقینا ان کی بساط سے بڑھ کر ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ سفر ایسے ہی جاری و ساری رہے اور خدا سب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔ میرے لئےادارہ قلم کار اس شعر کی عملی تفسیر ہے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

حالیہ بلاگ پوسٹس