غالباََ 2015میں برادرم نوردریش کی وال پر کسی پوسٹ پر ایک کمنٹ تھا۔ کمنٹ اس قدر متاثر کن تھا کہ میں نے پروفائل کھولی اور فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی۔ جو تھوڑی دیر بعد ہی قبول کر لی گئی۔ اس کے بعد روزانہ اس وال پر ان کا کالم پڑھنا معمول کا کام بن گیا۔ آفس جا کر فیس بک کھول کر ان کا کالم چیک کرنا کہ لگایا کہ نہیں۔ انہی دنوں میں نے خود بھی کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش شروع کر رکھی تھی۔ کوئی دو چار کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ سوشل میڈیا پر تعلق بڑھتا چلا گیا۔ ایک دن انباکس میں خواہش کا اظہار کیا کہ سیدی لاہور آئیں تو بتائیے گا ملاقات کریں گے۔ کیونکہ ان کی اکثر لاہور پریس کلب میں تصاویر ان کی وال پر دیکھی تھیں۔
ایک دن انباکس میں نمبر دیا اور کہنے لگے ملک صاحب دوپہر تین بجے پریس کلب آؤں گا۔ اگر ممکن ہو تو آ جائیں۔ میں نے فوراََ آفس سے رخصت لی اور پریس کلب پہنچ گیا۔ پریس کلب میں اپریل کی کافی حد تک گرم دوپہر میں بجائے اندر اے سی والے ہال میں بیٹھنے کے باہر درخت کی چھاؤں تلے کرسی لگائے محترم اکرم شیخ صاحب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ان کا تعارف کروایا کہ یہ اکرم شیخ صاحب ہیں اور میرے استاد ہیں۔ وہاں چائے پلائی اور کوئی تین ایک گھنٹے کی نشست وہاں جاری رہی۔ میں تقریباََ خاموشی سے شیخ صاحب اور ان کی گفتگو سنتا رہا۔ تعارف کے علاوہ چند سوالات ہی کیے ہوں گے جو ان کی گفتگو کے درمیان کیے۔ میرا اکرم شیخ صاحب سے یہ تعارف کروایا کہ یہ نوجوان دوست ہیں۔ سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں۔ اور سلجھے ہوئے نوجوان ہیں۔
کچھ دیر بعد ایک اور صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے میرا پوچھا تھا کہ شاہ جی یہ کون ہیں تو بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ملک قمر عباس اعون ہے۔ اپریل 2016 کا وہ دن ہے کہ اس دن سے اس سیٹ پر انہوں نے نہ صرف بٹھایا بلکہ اس کے بعد زندگی کے ہر معاملے میں بڑے بھائی کا کردار بھی ادا کیا۔ یہ پہلی ملاقات تھی ہمارے مرشد، استاد اور بڑے بھائی حیدر جاوید سید سے۔ اس سے اگلی ملاقات ان کے گھر شیخوپورہ میں اس روز ہوئی جس روز خرم ذکی کی شہادت ہوئی تھی۔ میں اور صدیف گیلانی لاہور سے قلم کار کے حوالے سے شاہ صاحب سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ قلم کار کو لانچ کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ بس اس حوالے سے کچھ مشورے درکار تھے۔ اور ہمارے پاس شاہ جی سے زیادہ سینئر بندہ دستیاب نہیں تھا جس سے راہنمائی لیتے۔ وہاں متعدد مشوروں کے دوران انہوں نے پوچھا کہ آپ کی ویب سائٹ کا ایڈیٹر کون ہے؟ میں نے کہا فی الحال تو کوئی نہیں۔ کیا ایڈیٹر ضروری ہے؟ کہتے بالکل ضروری ہے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور پھر صدیف کی طرف دیکھا۔ اور شاہ جی سے مخاطب ہو کر کہا "شاہ جی ہمارے پاس پھر آپ سے بہتر چوائس کوئی نہیں۔ اگر ممکن ہو تو قلم کار کے ایڈیٹر آپ بن جائیں”۔ جوباََ چند لمحے انہوں نے بھی سوچا اور پھر ہمیں مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگ چھوٹے بھائی ہو ۔ آپ کے کہنے پر میں بطور ایڈیٹر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ میرا نام دے دیں بطور ایڈیٹر۔ لیکن خیال رکھیے گا ۔ میں نے اتنے عرصے میں جو عزت کمائی ہے میرا سرمایہ وہی ہے۔ اس کو خراب نہ کیجیے گا۔ میں نے کہا شاہ جی بے فکر رہیے۔ قلم کار ویسے ہی چلایا جائے گا جیسا آپ کہیں گے۔
اس کے بعد معمول بن گیا کہ ہر روز متعدد فون کالز پر بات چیت ہونا۔ کوئی کام نہیں بھی تو حال چال کے لیے کال ضروری تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا معمول بن گیا۔ کبھی شیخوپورہ جانا یا انہوں نے لاہور آنا تو ملاقات لازمی ہوتی تھی۔ عامر حسینی کا نام بطور ایڈیٹوریل انچارج بھی شاہ جی نے ہی دیا تھا۔ بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر وہ قلم کار ٹیم کا حصہ نہ رہے تو یہ ذمہ داری شاہ جی نے مجھے دی کہ اب تم ایڈیٹوریل انچارج کا کام کرو گے۔ ہر گزرتے دن اور ہر فون کال اور ملاقات کے بعد تعلق مزید گہرا ہوتا گیا۔ پچھلے چھ سالوں کے دوران میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دوستوں میں سے جس قدر ان کے قریب میں رہا ہوں یا انہوں نے مجھے اپنے قریب رکھا یقیناََ اور کوئی بھی نہیں ہے۔ یا دوسرا شخص ہمارا دانش ور ہے بلال حسن بھٹی۔ ہم دونوں ہی وہ لوگ ہیں جو ان کے حد سے زیادہ قریب ہیں۔ اس قدر قریب کہ ہم گھر کے مسئلے مسائل پر بھی مشورے میں فقط ایک دوسرے کو شریک کرتے ہیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے غیر اعلانیہ ترجمان بھی ہیں۔ ایک غائب ہے تو لوگ ادھر ادھر پوچھنے کی بجائے ہم میں سے ہی کسی ایک کو پوچھیں گے کہ بندہ کدھر گیا۔
میں چونکہ خود سفید پوش خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ اور شاہ جی کو جب دیکھا تو ادھر بھی حالات یہی تھے۔ جب حالات ایک سے ہوں مسائل ایک سے ہوں تو تعلق گہرا ہوتا ہی ہے۔ شاہ جی سے ملاقات سے قبل ذہن وہی تھا جو عموماََ صحافیوں کے بارے میں ہوتا ہے کہ بندہ سینئر صحافی ہے۔ اچھا گھر ، اچھی گاڑی اور ٹھاٹ باٹ سے رہتا ہوگا۔ لیکن شاہ جی سے جب ملاقات ہوئی اور انہیں لوکل ویگن سے شیخوپورہ جاتے دیکھا تو حیران ہوا تھا کہ شاہ جی کیسے صحافی ہیں۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوتا گیا کہ اگر مصلحتوں کا شکار نہیں ہونا، اپنے حصے کا سچ وقت پر بولنا ہے، کسی کی لابی کا حصہ بن کر کسی پارٹی کی میڈیا ٹیم نہیں بننا تو یوں ہی سفید پوشی میں ہی زندگی بسر ہوگی۔ متعدد بڑے اخباروں میں ایڈیٹر رہنے کے باوجود جس بندے کے پاس گاڑی تو کیا سفر کرنے کے لیے سائیکل تک نہیں اور نام بھی بہت بڑا ہے تو مطلب ایک بات تو صاف ہوتی ہے کہ بندہ لفافے لے کر کسی کے ایجنڈے پر کام نہیں کر رہا۔ جس پیپلز پارٹی کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اس سے بھی نہ کبھی کوئی مطالبہ کیا نہ کوئی مفاد حاصل کیا۔ بلکہ کچھ مواقع تو ایسے بھی آئے کہ پیپلز پارٹی کے چند دوستوں نے بھی ان کی پوسٹ یا کالم پر شدید ردعمل دیا۔ یہی خوبیاں تھیں کہ شاہ جی سے تعلق فیس بک سے نکل کر اس قدر ذاتی ہو گیا کہ ہم دونوں ایک فیملی کا حصہ بن گئے۔
پچھلے دنوں جب میں ڈینگی کے مرض میں مبتلا تھا انہی دنوں ان کی اپنی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ اس کے باوجود بھابھی نے معتدد بار انہیں یاد کروایا کہ آپ نے قمر کا حال نہیں پوچھا۔ آپ اسے چھوٹا بھائی بھی کہتے ہیں اور لاپرواہی بھی برتتے ہیں۔ یہی حال ادھر بھی ہے۔
اس دور میں شاہ جی کا سایہ یقیناََ ہمارے لیے رحمت کا باعث ہے۔ ان کا ساتھ ایک طمانیت بخش احساس دلاتا رہتا ہے۔ آج ان کی سالگرہ ہے۔ زندگی کی تریسٹھ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ اور ہماری دعا ہے کہ مزید ڈھیر سارا جئیں اور ہماری یوں ہی راہنمائی کرتے رہیں۔ اللہ ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ ایسے نفسا نفسی کے دور میں ایسے تعلق جو آپ کا خیال رکھیں بہت غنیمت ہیں۔ اور ایسے تعلق والے چند ہی ہوتے ہیں اور چند قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔ یقیناََ ہم شاہ جی کی مزید کئی سالگرہ یوں ہی منائیں گے۔ اور تعلق یوں ہی چلتا چلا جائے گا۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn