قرآن مجید، فرقان حمید کے مطابق جب خداوندِ متعال نے انسان کو خلق کرنے کا ارادہ کیا تو ملائکہ جیسی معصوم مخلوق نے انسان کی خلقت پر کہا کہ یہ فساد برپا کرے گا لیکن خداوند متعال نے فرمایا کہ "انی اعلم ما لا تعلمون” (جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے)۔ یعنی انسان کی خلقت ایک خاص حکمت کے تحت کی گئی اور اسی بات کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا کہ "افحسبتم انما خلقنكم عبثا” (کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تمہیں بیکار پیدا گیا ہے)۔ انسان خدا کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی ہے۔ اسی لئے حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہوا کہ "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے گویا خدا کو پہچان لیا)۔ مخلوق کو خدا شناسی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ نے اپنے معصوم نبیوں کو مختلف اقوام کی طرف پیامبر بنا کر بھیجا اور اسی سلسلے کی آخری ہستی کا نام محمدمصطفیٰﷺ ہے۔ ابرہہ کے لشکر کا خانہ کعبہ پر حملے کا مشہور قصہ رونما ہوئے پہلا سال ہی تھا کہ 12 یا 17 ربیع الاول(بنا بر اختلافِ روایت) کو بنو ہاشم کے چشم و چراغ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ بی بی آمنہؑ کی بابرکت گود میں متولد ہوئے۔ آپﷺ کی ولادت سے قبل ہی آپﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ چھ سال کی عمر میں والدہ محترمہ کا سایہ بھی نہ رہا، یوں آپﷺ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے۔ آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلبؑ نے کفالت کی ذمہ داری سنبھالی اور بعد از وفاتِ حضرت عبدالمطلبؑ، آپﷺ کے شفیق چچا حضرت ابو طالبؑ نے آپﷺ کی کفالت کی ذمہ داری کو بطریقِ احسن انجام دیا۔ آج 12 ربیع الاول، اس ہستی کا یوم ولادت ہے جس کے بارے میں خود خدا نے حدیثِ قدسی میں فرمایا کہ "لولاك لما خلقت الافلاک” (اے رسول! اگر آپﷺ نہ ہوتے تو میں کائنات خلق ہی نہ کرتا)۔ آپﷺ کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے کے لئے صرف ایک فقرہ ہی کافی ہے کہ آپﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ اور رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "اول ما خلق اللہ نوری” (اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرا نور خلق کیا)۔ خدا نے آپﷺ کو پوری کائنات اور تمام انبیاء کا سردار بنا کر بھیجا اور ایک ایسی قوم کی طرف بھیجا جو جہالت اور گمراہی سے پُر ہو چکی تھی۔ وہ بیت اللہ جو بابرکت اور عالمین کی ہدایت کے لئے بنایا گیا، وہ بتوں سے بھر چکا تھا اور اس میں لوگ برہنہ طواف کرتے تھے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیتے اور عورت کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا۔ غلاموں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا اور عدل و انصاف صرف کمزور لوگوں تک محدود ہوگیا تھا۔ قرآن مجید تو متعدد مقامات پر گواہی دیتا ہے کہ آپﷺ کی آمد سے قبل لوگ واضح گمراہی میں مبتلا تھے۔ لیکن آپﷺ کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے۔ معاشرے کے ہر فرد سے برابری کا سلوک روا رکھا گیا۔ جزا و سزا کو معاشرے کے ہر فرد کے لئے یکساں لاگو کیا گیا، عورت کا مقام اس طرح بحال ہوا کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت، بیٹی کو رحمت اور بیوی کو نصف ایمان کا ذریعہ قرار دیا گیا اور بلاشبہ اس کامیابی کے حصول کے لئے لازوال قربانیاں دی گئیں۔ آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کو بے حد ستایا گیا۔ قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ پہلے زمانے میں جو انبیاء بھیجے گئے، لوگوں نے انہیں ستایا، ان کی پیروی نہ کی اور حتیٰ کہ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کو قتل تک کیا لیکن اس سب کے باوجود رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ "اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا۔” اسی طرح آپﷺ پر پتھر برسائے گئے، جادوگر و دیوانہ کہا گیا لیکن مجال ہے کہ پایۂ استقلال میں کوئی لرزش آئی ہو۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ "عزت بھی بڑی تھی، مصیبت بھی بڑی تھی۔” آپﷺ کی زندگی کا ایک ایک پہلو لائقِ قدر دانی اور قابلِ تقلید ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں آپﷺ کی اطاعت میں ہی فلاح و کامیابی کا راز مضمر ہے۔ خداوند متعال نے فرمایا کہ "جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔” (سورہ نساء، آیت 13) آپﷺ کی سیرت و کردار میں اگر دیانت اور صداقت کو دیکھیں تو عرب کے بدو بھی آپﷺ سے متاثر ہو کے صادق و امین کے لقب سے پکارتے تھے، وہ جانتے تھے کہ زمین و آسمان بدل سکتے ہیں لیکن عبداللہؑ کا لعلﷺ نہ جھوٹ بول سکتا ہے اور نہ ہی امانت میں خیانت کر سکتا ہے۔ اسی لئے آپﷺ جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو بے شمار ظلم و ستم سہنے کے باوجود حضرت علیؑ کے ذمے یہ کام لگایا کہ کفار کی امانتیں ان کے سپرد کر کے پھر مدینہ آئیں۔ اخلاق کے لحاظ سے دیکھیں تو آپﷺ کامل نظر آتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ نہایت احترام سے پیش آتے۔ سب کے ساتھ سلام میں پہل کرنا آپﷺ کا شیوہ تھا۔ آپﷺ کے اخلاق کی گواہی قرآن مجید میں خدا نے دی کہ "انك لعلى خلق عظيم” (بے شک آپﷺ اخلاق کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز ہیں)۔ اور رسول اکرمﷺ نے اپنی بعث کا ایک مقصد یہ بھی بیان کیا کہ بے شک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ عبادتِ خدا میں دیکھیں تو رسول اکرمﷺ سے بڑھ کر کوئی عبادت گزار نہیں۔ جن کو خداوند متعال نے خود فرمایا کہ "اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے۔ (سورہ اسرا، آیت 79) پھر آپﷺ ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتے، یہاں تک کہ آپﷺ کے پاؤں میں ورم پڑنے لگے تو خدا نے سورہ مزمل میں فرمایا کہ "اے میرے کملی والے رسولﷺ! رات کو کم کھڑا کرو، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا تھوڑا بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔” (سورہ مزمل، آیات 1 تا 4) اسی کثرت عبادت کو دیکھ کر لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپﷺ کو اتنی عبادت کی کیا ضرورت ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں خدا کا شکر گزار بندہ بنوں؟
عفو و درگزر میں دیکھیں تو آپﷺ کی مثل کوئی نہ تھا۔ تاریخ نے آپﷺ کی سیاست کے دو اہم پہلو بیان کئے، ایک اس وقت جب آپﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ عمرہ کی غرض سے مکہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے لیکن مکہ پہنچنے سے قبل ہی کفار نے آپﷺ کے قافلے کو روک لیا اور عمرہ نہ کرنے دیا۔ اس موقع پر آپﷺ نے زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھ کے مظلومانہ سیاست کرتے ہوئے کفار کی تقریباً تمام شرائط کو تسلیم کر کے صلح حدیبیہ کی اور عمرہ کیے بغیر ہی واپس لوٹ آئے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس صلح کے بعد وہاں موجود کچھ لوگوں کو آپﷺ کی رسالت پر بھی شک ہوا لیکن وہ لوگ یقیناً حکمت و مصلحت سے عاری تھے۔ دوسرا موقع اس وقت دیکھنے کو ملا جب آپ نے 8 ہجری کو مکہ فتح کر لیا اور آپ کے پاس مکمل اختیار تھا کہ چاہیں تو سب مشرکین کو ان کے کیے کی سزا دیں لیکن اس موقع پر سزا دینے کی قدرت و طاقت ہونے کے باوجود اصل شجاعت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا "آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔” اور اس موقع پر ایسے شخص(ابو سفیان) کے گھر پناہ دینے کا کہا جو فتح مکہ سے قبل آپﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ آپﷺ اپنی اہل بیتؑ سے بہت محبت رکھتے تھے اور یہ محبت رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے اس مقام و مرتبہ کی بنیاد پر تھی جو خدا نے انہیں عطا کیا تھا۔ اپنی بیٹی زہراؑ، بھائی علیؑ اور اپنے حسنینؑ شریفین سے بے پناہ پیار تھا۔ اسی لئے جب رسول اکرمﷺ سے لوگوں نے اجرِ رسالت کے بارے میں پوچھا تو حکمِ خدا سے آپﷺ نے فرمایا "میں تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے مودت کرو۔” (سورہ شوریٰ، آیت 23) آپﷺ کی عظمت کا ایک اور پہلو اپنی اُمت سے محبت کا تھا۔ اپنی امت کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔ پچھلی امتوں پر نافرمانئ خدا کی وجہ سے آنے والے عذابوں کی وجہ سے آپﷺ کو اپنی امت کی فکر تھی لیکن خداوندِ متعال کا جتنا شکر کریں، کم ہے کہ اس ذات نے اپنے حبیبﷺ کے صدقے پچھلی امتوں پر نازل ہونے والے عذاب اس اُمت پر نازل نہ کیے بلکہ اُس ستّار العیوب نے آپﷺ کے اُمتیوں کے عیوب کی پردہ پوشی بھی کی تاکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے شرمندہ و رسوا نہ ہو سکے۔ آپﷺ کی سیرت و عظمت کوئی کیا بیان کرے۔ الفاظ میں آپﷺ کی عزت و عظمت بیان نہیں کی جا سکتی۔ خدا نے آپﷺ کو بشیر و نذیر، باعثِ ہدایت اور وسیلۂ نجات، شافِع روزِ جزا، سید المرسلین اور عالمین کے لئے رحمت قرار دیا۔ آپﷺ کی بعثت کو مومنین پر ایک عظیم احسان قرار دیا، جیسا کہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا کہ "درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس(اللہ) کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔” (سورہ آل عمران، آیت 164) آپﷺ کی عظمت کے سامنے تو مولا علیؑ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "انا عبد من عبيد محمد” (میں تو محمدﷺ کے غلاموں میں سے ایک ادنیٰ غلام ہوں)۔ آپﷺ کی زندگی کا ایک ایک پہلو اپنے مقام پر غور طلب ہے۔ آپﷺ کے میلادِ مسعود کے پُر مسرت موقع پر ہمیں چاہئے کہ آپﷺ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ پر بھی غور کریں اور اپنی طرف سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ خداوندِ متعال ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور روزِ محشر، اپنے حبیبﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین) "مصطفٰی! جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn