Qalamkar Website Header Image

شریف خاندان کو عرب ہی اربوں کیوں دیتے ہیں؟ – حیدر جاوید سید

haiderپانامہ کیس اب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ سو بہت احتیاط کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنا ہو گی۔ کہا گیا "اخباری تراشے ثبوت نہیں ہوتے۔ اخبار کی زندگی ایک دن ہوتی ہے اگلے دن اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔”اس پر ایک دو نہیں درجن بھر دفتر لکھے جا سکتے ہیں مگر حدِ ادب مانع ہے۔ ایک صحافی کے طور پر مجھے ان ریمارکس سے دلی صدمہ پہنچا۔ کبھی ردی کے گوداموں کا وزٹ کیجئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان گوداموں میں موجود کچھ ردی کے کاغذات ایسے ہوتے ہیں جو پکوڑوں والے بھی نہیں خریدتے کہ اخبارات جس کاغذ پر شائع ہوتے ہیں وہ تازہ پکوڑوں سے لگے گھی اور تیل کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ویسے بہت ادب کے ساتھ کیا یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ 1990ء سے 1999ء کے دوران جو چار سیاسی حکومتیں 58 ٹو بی کی زد میں آئیں ان حکومتوں کی رخصتی اخباری تراشوں کی مرہونِ منت تھی اور عدالتوں نے چار میں سے تین حکومتوں کی رخصتی کو درست قرار دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے پچھلے (2013-2008 ء والے) دور میں میمو گیٹ سمیت جتنے سیاسی مقدمات تھے وہ سب اخباری تراشوں کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے تھے۔ چونکہ پیپلز پارٹی کے خلاف تھے یہ مقدمات اس لئے آسمانی صحیفوں کا درجہ پا گئے۔ کاش نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم ہوتے۔ اب تک کوئی نہ کوئی ادراہ ان کے اقتدار کا گھونٹ بھر چکا ہوتا۔ جناب نواز شریف خوش قسمت ہیں ۔ ان کا تعلق اولاََتو پیپلز پارٹی سے نہیں اور ثانیاََ کسی چھوٹے صوبے سے۔ وہ پنجاب کے دارالحکومت تختِ لاہور کے باسی ہیں۔ رائے ونڈ روڈ پر جاتی امراء سٹیٹ کے مکین۔ 1993ء میں ان کے کشمیری بھائی چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ مرحوم مدد کو آئے اور صدارتی احکامات پر حکومتیں اور اسمبلیوں کی برطرفی کو بلاجواز قرار دے دیا۔ جناب شاہ نے خود کہا تھا کہ سندھی چیف  جسٹس سجاد علی شاہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدد نہیں کی تھی مگر میں نے اپنے  کشمیری بھائی نواز شریف کی حکومت بحال کردی۔

1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا گھونٹ بھرا تو سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں نہ صرف اس برطرفی کو درست قرار دیا بلکہ فوجی حکومت کے اس مؤقف کو بھی تسلیم کیا کہ اگر نواز شریف کی حکومت مزید رہتی تو ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جاتا۔ مشرف دور میں نواز شریف کو ہیلی کاپٹر کیس میں 14 سال کی سزا سنائی گئی ( یہ بنیادی طور پر اثاثوں کے گھپلے کا مقدمہ تھا) ۔ طیارہ کیس میں عمر قید مگر پھر سعودی عرب، قطر اور لبنان ان کی مدد کو آئے اور وہ ایک رات خصوصی سعودی طیارے میں خاندان کے خانساموں اور 21 اٹیچی کیسوں سمیت 10 سالہ معاہدہ جلا وطنی کر کے رخصت ہوگئے۔ 2007ء میں وطن واپس آئے وہ بھی بینظیر بھٹو کے مطالبہ اور سعودی دباؤ پر 2008ء میں انہوں نے ہیلی کاپٹر کیس کی سزا کو چیلنج کیا۔ اپیل کا وقت ختم ہونے کے باوجود ان کی اپیل قابلِ سماعت قرار پائی اور پھر قطر کی شاہی فیملی کے ایک فرد عبدالرحمان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ ہیلی کاپٹر ان کا تھا، نواز شریف نے کرائے پر حاصل کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی دشمنی میں اندھے ہوئے افتخار چودھری سمیت کسی نے سوال نہ کیا اچھا اگر ہیلی کاپٹر کرائے کا تھا تو اس پر اٹھنے والے ٹیکس اخراجات ٹیکس گوشواروں اور انتخابی دستاویزات میں ظاہر کیوں نہ کئے گئے۔ (یاد رہے کہ ہیلی کاپٹر مسلم لیگ (ن) نے نہیں نواز شریف نےکرائے پر لیا تھا)۔ عدالت نے عالی جناب کو بری کردیا۔ اب پانامہ کیس اور لندن والے فلیٹوں کا تنازع ہے۔ قطرکے شاہی خاندان کے ایک صاحب حمد بن جاسم بن جبرالثانی ان کی مدد کو آئے اور سپریم کورٹ میں ایک خط شریف خاندان کی طرف سے پیش کیا گیا۔ خط میں لندن والے فلیٹوں کے حوالے سے ایک نئی کہانی ہے۔ یہ بالترتیب چھٹی کہانی ہے۔ قبل ازیں بیگم کلثوم نواز، چودھری نثار، صدیق الفاروق، خواجہ آصف، خودمیاں نواز شریف اور ان کے فرزند الگ الگ کہانیاں سناتے رہے ہیں۔ جناب نواز شریف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں خطاب کے دوران جو کہانی سنائی تھی  قطری شہزادے کا  خط اس کہانی کے برعکس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میاں محمد شریف نے حمد بن جاسم کے والد کے پاس  سرمایہ کاری کی تھی اس وقت جاسم 2 یا 3 سال کےتھے۔انہوں نے جو روایات سنیں ان پر ایمان لاتے ہوئے خظ لکھ دیا۔ اس کہانی میں بہت جھول ہیں سب سے بڑا یہ کہ دبئی میں بیچی گئی فیکٹری کی رقم سرمایہ کاری کے لئے قطر کیسےپہنچی؟ ہنڈی کے ذریعے، بینک کی معرفت یا مرحوم میاں محمد شریف بریف کیسوں میں بھر کر رقم قطر لے گئے؟

یہ بھی پڑھئے:  تین باتیں

سرکار کے درباری، دھمالی اور گوئیے اَت اٹھائے ہوئےہیں۔ وزارتِ اطلاعات کا دفتر وزیرِ اعظم کے بچوں کی "صفائی” کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خواجہ پرائز بانڈ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے جب عمران خان کا نام لیتے ہیں۔ وجوہات لکھی جا سکتی ہیں مگر اس کے لئے خواجہ کی سطح پر اترناپڑے گا۔ سو جانے دیجیئے۔ ویسے عمران واقعتاََ ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور اس کی جماعت ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ کا چائلڈ بے بی ہے۔ خواجہ کو یاد تو ہو گا ایک بار وہ اسی جماعت کی پنجاب کی صدارت  یا مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب کی پیشگی یقین دہانی پر عمران خان کی قیادت کو تسلیم کرنے پر رضا مند تھے۔ خیر جانے دیجئے اتنی سطریں بہت ہیں خواجہ پرائز بانڈ کے لئے۔جناب نواز شریف کے خاندان کی مدد کے لئے عرب سے خط آیا ہے۔ کسی میں مجال ہے کہ عرب سے آئے خط کی اہمیت تسلیم کرنے سے انکاری ہو کر "توہینِ عربی” کے الزام کی زد میں آئے۔ لازم ہے بائیس کروڑ پاکستانی شکراََ شکراََ یاحبیبی والقطری کا ورد کریں۔ پچھلی شب پیپلز پارٹی کے ایک دوست سے کہا یار یہ جو ہر وقت ایک زرداری سب پر بھاری کا راگ الاپتے رہتے ہو دیکھ لو اسے کسی عربی شہزادے سے خط لکھوانے کی نہ سوجھی بلکہ حج کیس میں ایک عربی شہزادے نے اس کے وزیرِ حج کے خلاف خط لکھ مارا اور چودھری کورٹ نے اس خط کو مقدس دستاویزات کا درجہ دے دیا۔ سکہ بند جیالے نے کہا شاہ جی ہمارے لیڈر مقدمات کا سامنا کرتے ہیں بچوں کی طرح روتے نہیں۔ اس مکالمے کو بھی یہیں چھوڑتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں رضا خان جمالی۔ جوانی میں کامریڈوں کے قافلے میں شامل تھے پھر بھٹو صاحب کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ شاہی قلعہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھا اب  بھی بھٹو دے نعرے وجن گے کا نعرہ سن کر پیرانہ سالی  کے باوجود جھومنے لگتے ہیں۔ یہی کامریڈ رضا خان جمالی کہتے ہیں ” فلیٹوں کی کہانیاں سنانے والوں کو ایک دیہاتی تھانے کے نکے تھانیدار کے سپرد کر دیں صرف آدھے گھنٹے کے لئے اور اصل کہانی طوطے کی طرح سن لیں”

یہ بھی پڑھئے:  سی پیک سے وابستہ پاکستان کا روشن مستقبل | عابد ایوب اعوان

میں قانون دان تو نہیں ہوں مگر چار عشروں سے عملی صحافت نے اتنا سمجھا دیا ہے کہ سادہ سی بات کہہ لکھ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس کسی نے بھی عربی شہزادے سے خط لکھوانے کا مشورہ دیا (کھرا نجم سیٹھی کی طرف جاتا ہے) عنقریب میاں نواز شریف اس مشورے باز کو رائے ونڈ روڈ پر مرغا بنانے والے ہیں۔ آپ تصور کیجئے کڑاکے کی سردی نور پہر (صبح صادق ) کا وقت، سردی،دھند اور بندہ مرغا بنا ہوا تو کیا حالت ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ حمد بن جاسم بن جبرالثانی کے خط سے مشکلات بڑھیں گی۔ او اگر جرح کے لئے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو اس بات کا بھانڈہ بھی پھوٹے گا کہ یہ وہی صاحب ہیں جن کی قطری کمپنی سے نواز شریف حکومت نے گیس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے آگے کی بات اور ہے وہ یہ کہ حمد بن جاسم قطے کے اس خلیفہ ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں جو سالانہ دو ارب ڈالر شام میں بشار الاسدکی حکومت کے خلاف سرگرم عمل مسلح تنظیم النصرہ فرنٹ کو دیتا ہے۔ اسی ٹرسٹ نے 2014ء میں پچاس کروڑ ڈالر داعش کےخلیفہ ابوبکرالبغدادی کو بھیجے۔جنوبی ایشیاء کے دو ملکوں ایران اور پاکستان میں سرگرم ایک دہشت گرد تنظیم کو بھی اسی ٹرسٹ سے مالی امداد ملتی ہے۔ نواز شریف کے لئے بلاوجہ خط نہیں لکھا گیا۔ ایران کے مقابلہ میں قطرکی مہنگی گیس کی خریداری  کا معاہدہ ایک وجہ ہے چند دوسری وجوہات بھی ہیں بس تھوڑا سا توقف کیجئے راز ہائے درون سے پردہ اٹھا ہی چاہتا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں، ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس