Qalamkar Website Header Image

امریکی صدارتی انتخابات اور مسلم دنیا کے ” کودن ” – حیدر جاوید سید

haiderخبر تو بس اتنی سی ہے کہ ’’امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ریپلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹ امیدوارہیلری کلنٹن کو شکست دے کر امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہو گئے‘‘۔ انتخابی اکھاڑے میں اترنے والے دونوں امیدوار جیت تو نہیں سکتے۔ ایک فاتح تو دوسرا شکست خوردہ۔ مگر امریکہ اور اس سے باہر دنیامیں ایک ہیجان برپاتھا۔ انتخابی نتائج کے بعد دنیا سکتے میں آگئی۔ کوئی پوچھے تو کیوں صاحب۔ کوئی نیاکام ہوا مریکہ کے صدارتی انتخابات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ریپلکن ہوں یا ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار رائے دہندگان تقریباََ دوبار اعتمادکا ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پارٹی کا صدارتی امیدوار تیسری بار جیتا ہو۔ پچھلے آٹھ برسوں سے ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما امریکہ کے صدر تھے۔ 8 برس قبل مسلم دنیا کے کروڑوں ’’کودن‘‘ اس بات پر تالیاں پیٹ رہے تھے کہ ایک سیاہ فام اور مسلمان باپ کا بیٹا باراک حسین اوباما امریکہ کا صدر بن گیا۔ پھر اس نے بائبل پر حلف اٹھایا تو یہ ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے پھرے۔ کچھ امید پرست کہہ رہے تھے اب بش کے جنگی جنون پر مبنی دور کا خاتمہ ہو گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ان آٹھ برسوں کے دوران قذافی کا گھونٹ بھرا گیا۔ مصر میں اخوان کے غبارے میں سے ہوا نکال کر تازہ دم فوجی حکمران لا بٹھایا گیا۔ امریکہ نے عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا مگر اندر ہی اندر اسرائیل اور دو مسلم ممالک سعودی عرب اور کویت کے تعاون سے داعش نام کی تنظیم کھڑی کردی۔ ’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ جو داعش کہلاتی ہے۔ جدید تاریخ کے ادوار میں اس تنظیم نے درندگی کے سابق سارے ریکارڈوں پر معصوم انسانوں کا خون بہایا اور دہشت پھیلادی۔ بش کا امریکہ خود لڑتا بھڑتا تھا۔ اوبامہ کے امریکہ نے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جس سے امریکہ کی سپریم طاقت کا تصور قائم و دائم رہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کو الگ کروا کر کے نئی عیسائی ریاست بنوائی جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو آزادی دلوائی۔ اوباما امن کا نوبل انعام لے اڑے۔مگر فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل و بھارت کے مربی و دوست بنے رہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے پر ہوا تھا تب سے امریکہ دنیا میں بدمست سانڈ کی طرح ڈکارتا پھر تا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اس نے جنگ و جدال کے بیج بوئے اس کی فصلیں کٹ رہی ہیں۔ انسانی سر کٹ رہے ہیں، ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، بستیاں تاراج ہو رہی ہیں۔ لاریب انسانیت کشی کا یہ گھناؤنا کاروبار مسلم دنیا میں عروج پر ہے۔ ساعت بھر کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کیا امریکہ واحد ذمہ دار ہے اس صورتحال کا؟ مختصر سا جواب یہ ہے کہ ’’جی ہر گز نہیں‘‘مسلم دنیا کے جھولی چک حکمران اور انتہا پسند بوزنے دونوں کرائے کے قاتل بنے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کے ایک بڑے اتحادی سعودی عرب کی معیشت ہچکولے لے رہی ہے۔ 25سے 28 لاکھ حاجی ہر سال حج کرنے جاتے تھے امسال 18لاکھ حاجی سعودی عرب پہنچے۔ سعودی حکومت نے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئےعمرہ ویزہ فیس ختم کر دی، تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی، سرکاری ملازمتوں میں غیر ملکیوں کی بھرتی کو کم سے کم کرنے کا فیصلہ۔ خود امریکہ چین کا ڈھائی سو ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ چینی معیشت دنیا کی مستحکم ترین معیشت ہے۔ اسی دوران چپکے سے آنجہانی سوویت یونین کا وارث روس اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔ روس اور چین نے مل کر سیاست کے مختلف میدانوں میں امریکہ کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ شام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ شام کا بدلہ یمن میں چکانے کی پالیسی نے مشرقِ وسطیٰ میں نئے بحران کا دروازہ کھول دیا۔ امریکی پیچھے ہٹے اور ایران سے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کر لیا۔ منجمد 100ارب ڈالر کی ادائیگی میں یہ شرط شامل ہے کہ امریکہ 100کی بجائے 120ارب ڈالر ایران کو دے گا۔ اور سپریم طاقت کا زعم پاش پاش ہوا۔ خود امریکہ کے اندر بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد سے بڑھ کر انیس فیصد ہو گئی۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر کوئی عقل و دانائی سے محروم شخص ہی ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے لئے پرامید ہو سکتا تھا۔ مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ نے امریکی سماج کی نفسیات اور سیاسی شعور کو سمجھے بغیر تجزیوں کی جو اَت اٹھائی وہ جاگتی آنکھ کے خوابوں یا سرابوں کے تعاقب کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اب یہ سارے تجزیہ نگار صدمے کی حالت میں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پینتالیسویں صدر بن چکے۔ ایک قوم پرست امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر وہ سامنے آئے۔ انتخابی مہم کے دوران منہ پھٹ مقرر کے طور پر انہوں نے سب کی کلاس لی۔ بے بہا سنائیں۔ سیخ پا ہونے والوں نے دو باتوں کو نظر انداز کو نظر انداز کر دیا۔اولاََ یہ کہ ٹرمپ امریکہ کے قدامت پسندوں اور سرمایہ داروں کی امیدوں کا مرکز بن چکے تھے۔ وہ اصلاحات روزگار کی بات کرتے، تارکینِ وطن کا بوجھ کم کرنے کی بھی۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں (خصوصاََ مسلمان )اپنے اپنے ملک کے سوا دنیا کے ہر ملک کو آزاد معاشرے کا ضامن دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں ایک آزاد معاشرہ ہی ہے مگر کیا 9/11 کے بعد امریکہ تبدیل نہیں ہوا؟ ہوا اور مزید تبدیلی کے لئے بتدریج کروٹیں لے رہا ہے۔ امریکی معاشرے کے سینکڑوں سماج سدھار لوگوں اور باشعور سیاسی کارکنوں کو مسلم تارکینِ وطن کے رویوں پر اعتراضات ہیں وہ امریکہ کی معاشرتی اقدار سے انحراف کر کے جینا چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی کے اپنے گندے کپڑے امریکہ کے سماج میں دھونے پر بضد ہیں۔ ایک مسلم تارکینِ وطن ہی قدامت پسندوں کا مسئلہ نہیں۔ امریکیوں کی نئی نسل میں یہ بات راسخ ہوتی جا رہی ہے کہ تارکینِ وطن کم پیسوں پر ملازمتیں کر کے ان کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ کڑی سے کڑی ملی مسائل یکجا ہوئے۔ صدارتی انتخابات کے مرحلہ میں خاص زاویے سے فی میل شاؤنزم ابھارا گیا لیکن ریپلکن امیدوار ٹرمپ نے (جو صدر منتخب ہو چکے) سماجی و معاشی مسائل کو اہمیت دی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ امریکی مسلمانوں اور مسلم دنیا میں پھیلی صبح سے جو ماتمِ ہیلری جاری ہے وہ بلاوجہ ہے۔ جو صدیوں سے خود کو نہ بدلنے کی قسم کھائے مسلمان باقی سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔
انتخابات جذباتیت اور ٹوٹکوں سے نہیں زمینی حقائق اور مسائل پر لڑے جاتے ہیں۔ افسوس کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ادراک نہ کر پائی۔ ریاست کے پٹھو سمجھے جانے والے اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلزانتخابات سے ایک دن قبل تک ہیلری کلنٹن کو فاتح اعظم کے طور پر پیش کر رہے تھے اب وہ بھی مسلم دنیا کی طرح صدمے کی حالت میں ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے نومنتخب امریکی صدر کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 70سال سے سٹرٹیجک پارٹنز ہیں۔ ارے کیسی حصہ داری صاحب ؟ ہم ۷۰ برس سے بندہ بے دام کے طور پر خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ ۳۷ برسوں سے امریکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ نے ہمیں کیا دیا؟ اس سوال کا جواب دانتوں کے درد میں مبتلا کردیتا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کو صنفی امتیاز سے جوڑنے والے احمقوں سے کوئی پوچھے اگر ہیلری زمینی حقائق اور مسائل سمجھ نہیں سکیں تو ٹرمپ کی جیت شاؤنزم کیوں کر ہوئی؟ یہ بجا ہے کہ ریپبلکن ، ڈیموکریٹ کے سامنے قدامت پسند ہیں مگر ڈیموکریٹ امریکی بھی دودھ کے دھلے ہرگز نہیں۔ ریاست کا مفاد مقدم ہوتا ہے۔ یہ مفاد منتخب ادارے وضع کر تے ہیں۔ صدر کو ان مفادات کے محافظ اعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دینا ہوتی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں (پاکستان) اپنی پالیسیز کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ ریپبلکن کی شہرت یہ ہے کہ وہ حکومت کی بجائے فردِ واحد سے معاملہ کرنا زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں مگر ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ کوئی ڈر ہے تو غلطیوں کی اصلاح کیجئے، بونگیاں مارنے کی بالکل ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  ہمیں کس چیز کی توقع تھی؟ | ایاز امیر

بشکریہ روزنامہ خبریں

حالیہ بلاگ پوسٹس