Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید - قلم کار

ختم دھرنا ہوا اور تماشے شروع – ہزارہ دھرنا، تدفین، سیاسی الزامات

سانحہ گشیتری کول مائنز مچھ کے پس منظر بعدازاں ہزارہ برادری کے دھرنے، وفاقی وزراء کی عامیانہ گفتگو، وزیر اعظم کی طرف سے دھرنے والوں کو بلیک میلر قرار دینے والی بات اورمیتوں کی تدفین و دھرنے کے اختتام تک ان سطور میں معروضات عرض کرتا رہا ہوں۔ ہزارہ دھرنا ختم ہوگیا، کیسے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ شہادت سعادت کے فرنچائزیوں نے اس بار نیا ہاتھ کیا۔

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کا میتوں کی تدفین کے لئے خط (یا یوں کہہ لیجئے مجتہد کا فتویٰ) کس نے منگوایا۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزارت خارجہ نے ایرانی حکام سے رابطہ کیااور مسئلہ کے حل میں تعاون کی درخواست کی۔ بزرگ آیت اللہ نے تدفین کی اپیل کردی۔دوسری رائے رکھنے والے چند محترم احباب اس خط کا ملبہ سید ساجد نقوی پر یہ کہہ کر ڈال رہے ہیں کہ (نقوی گروپ) ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی کامیابیوں سے جلتا ہے اس لئے میتوں کی تدفین کرانے کاخط منگوایا گیا۔

تیسری رائے پہلی دو آراء کے مقابلہ میں یکسر مختلف ہے۔ اس رائے کے حاملین ایم ڈبلیو ایم کو موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔ ان کے موقف کے دو پہلو ہیں اولاً یہ کہ وحدت والے چونکہ پی ٹی آئی سے سینٹ کی نشست مانگ رہے تھے اور پی ٹی آئی نے جواب دے دیا تھا اچانک یہ سانحہ ہوگیا جس کے بعد وحدت کے ارکان و رہنما خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے جونہی ان کا معاملہ طے پایا انہوں نے دھرنا ختم کروادیا۔

یہ بھی پڑھئے:  امریکہ کا ویت نام سے افغانستان تک سفر اور بھٹو

دوسرا پہلو یہ ہے کہ 11مقتولین میں سے دو کے خاندانوں کا تعلق وحدت سے تھا۔ وحدت کے سابق ایم پی اے آغا رضا نے ان دو خاندانوں کو ہتھیار بناکر استعمال کیا یہی دو خاندان دھرنا ختم نہ کرنے کی صورت میں اپنے مرحومین کی نعشیں تدفین کے لئے لے جانے پر بضد ہوئے۔ تنازع سے بچنے کے لئے ہزارہ دھرنا ختم کردیا گیا۔ یہ کہ آغا رضا انہی دو خاندانوں کے ہمراہ ہی وزیراعظم کو سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی میں جاکر ملے۔

ان تین آراء کے بعد ایک موقف ہزارہ برادری کی دھرنا کمیٹی کے ایک رکن عالم دین کی ویڈیو کی صورت میں سامنے آیا۔ ویڈیو بیان میں کوئٹہ کے اس عالم دین کا موقف ہے کہ گیارہ میں سے 9 شہداء کے ورثا اور 14رکنی کمیٹی کے گیارہ ارکان کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ میتیں دفن کرنے کے بعد ہم انپے امام بارگاہ میں تعزیت کی خاطر آنے والوں کے لئے بیٹھیں گے جسے آنا ہے وہ مقامی امام بارگاہ میں آجائے لیکن کمیٹی کے بعض ارکان (ان کی قیادت آغا رضا کے ہاتھ میں تھی) نے صوبائی حکومت کے کہنے پر وزیراعظم سے بہادر خان یونیورسٹی جاکر ملاقات کرنے کی دعوت قبول کرلی۔ اس طرح آغا رضا کے ساتھ دو مقتولین کے خاندان وزیراعظم کو ملنے گئے 9 خاندان اور کمیٹی کے گیارہ ارکان اجتماعی دعا والی جگہ پر موجود رہے۔

اب آتے ہیں پہلے موقف کی طرف، اگر تدفین کے لئے وزارت خارجہ کے توسط سے بزرگ عالم دین آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کا خط منگوایا گیا ہے تو اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ فرقہ پرستی کی نفرت سے تقسیم معاشرے میں اس خط کو بھگتنا پڑے گااور فرقہ پرستوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ ویسے پچھلے دو روز سے اس حوالے سے چند کالعدم تنظیموں کے ارکان طوفان بدتمیزی برپاکئے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  الطاف بھائی! تاریخ کو جوتے نہیں مارے جا سکتے

ایک بات طے ہے کہ ہزارہ دھرنا کے اختتام اور میتوں کی تدفین کے معاملے پر آراء کے اختلاف یا سیاسی حکمت عملی نے رسواہی کیا۔ خیر سیاست میں رسوائی کیسی البتہ آغا رضا کا طرزعمل حیران کن ہے۔ جب کمیٹی کے 14میں سے 11 ارکان اور 9مقتولین کے خاندان وزیراعظم کو بہادر خان یونیورسٹی جاکر ملنے سے انکاری تھے تو وہ اس کے لئے بضد کیوں ہوئے۔ ثانیاً یہ کہ انہوں نے کس حیثیت میں یہ کہہ دیا کہ وزیراعظم نے دھرنے والوں کو نہیں پی ڈی ایم کو بلیک میلر کہا۔ کیا آغا رضا نے پی ڈی ایم کا نام اس لئے لیاکہ ایک بڑا طبقہ اور دو وفاقی وزراء یہ کہہ رہے تھے کہ بلیک میلر ان کو کہا گیا جو سینٹ کی نشست یقینی بنانےکے لئے میتوں کی آڑ میں ملک بھرمیں دھرنے دلوارہے ہیں؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہزارہ دھرنابے نتیجہ رہا اس پر ستم یہ کہ وزیراعظم کی ورثا سے گفتگو کی جو جعلی ویڈیو جاری کی گئی وہ بھی دلچسپ ہے۔ چار پانچ خواتین ہیں اور وزیراعظم شام 6بجے کوئٹہ میں دھوپ تھی یہ معجزہ ہی تو ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم اور حکومت سے غلطیاں در غلطیاں ہوئیں۔ ہزارہ برادری کے مسلک کے وزراء کو نہیں بھجوایا جاناچاہیے تھا۔ یہ کہ سینٹ کی نشست کے لئے بلیک میل کیا جارہا ہے (یہ موقف علی زیدی کا ہے) اور خود وزیراعظم کے خیالات، ان پر افسوس ہی ظاہر کیا جاسکتاہے۔

یہ بھی پڑھئے:  دشنام طراز یوں کا قومی مقابلہ - حیدر جاوید سید

گیارہ افراد جان سے گئے، 6دن حکومتی ارکان نے تماشا لگائے رکھا کہ سات افغانی ہیں (اس حوالے سے تفصیل عرض کرچکا) اب 11مقتول کوئٹہ میں دفن ہوئے اور سات افغانی مقتول ہزارہ کہاں ہیں؟ یاد رہے کہ جو تین افغان ہزارہ قانونی طور پر مقیم تھے ان کی فیملی نے انہیں مقامی قبرستان میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سارے معاملے میں جو ہوا وہ افسوسناک ہے۔ کیا کسی کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ جو ہوا اس سے جنم لینے والے اختلافات آنے والے دنوں میں کیا رنگ دیکھائیں گے۔

Views All Time
Views All Time
1128
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس